امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک

فضائلِ صلوات

2 ووٹ دیں 04.5 / 5

پیغمبر اکرم ۰ کی ولادت کی مناسبت سے ایک اہم مضمون پیش کر رہے ہیں جس میں درود کے حوالے سے متعدد باتیں ذکر کی جارہی ہیں۔ اس میں درود کا ثواب، درود بھیجنے کے آداب، اور درود کی برکتوں کے حوالے سے چند واقعات شامل ہیں۔ یہ اقتباسات ہم نے کتاب ’’فضائل صلوات‘‘ سے لئے ہیں، جسے علی قزوینی نے تالیف اور سید محمد سلیم علوی نے ترجمہ کیا ہے۔

صلوات کا ثواب
رسول خدا ۰ فرماتے ہیں: ’’شب معراج میں نے ایک فرشتہ دیکھا، جس کے ایک لاکھ ہاتھ تھے اور ہر ہاتھ میں ایک لاکھ انگلیاں تھیں اور ہر انگلی میں ایک لاکھ پور (بند) تھے۔ اس فرشتے نے کہا: ’’میں بارش کے قطروں کا حساب جانتا ہوں کہ کتنے صحرا میں اور کتنے دریا میں برستے ہیں، میں خلقت سے لے کر اب تک کے بارش کے قطروں کو جانتا ہوں، مگر ایک ایسا حساب ہے کہ جس سے میں عاجز ہوں۔‘‘
رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: ’’وہ کونسا حساب ہے؟‘‘
اس نے عرض کیا:
’’جب آپ کی امت گروہ کی شکل میں ایک ساتھ ہوتی ہے اور ایک ساتھ مل کر آپ پر صلوات بھیجتی ہے تو میں اس صلوات کے ثواب کا حساب کرنے سے عاجز رہ جاتا ہوں۔‘‘

صلوات پڑھنا اور پھول سونگھنا
مالک جہنی بیان کرتے ہیں:
میں نے ایک پھول حضرت امام جعفر صادقٴ کو دیا۔ آپٴ نے اسے لیا اور سونگھا اور دونوں آنکھوں سے مس کیا، پھر فرمایا:
’’جو شخص پھول لے کر سونگھتا ہے اور آنکھوں سے لگا کر کہتا ہے: ’’اللھم صل علی محمد وآل محمد‘‘ تو اسے زمین پر رکھنے سے پہلے اس کے تمام گناہ بخش دئیے جاتے ہیں۔‘‘

ذکرِ الہٰی اور وردِ صلوات کے آداب

١۔ طہارت:
استجابتِ دعا اور ذکر و وردِ صلوات کے لئے جسمانی و باطنی طہارت و پاکیزگی کی شرط ہے ۔

٢۔ ناامیدی:
استجابت کی ایک شرط یہ ہے کہ خدا کے سوا سب سے ناامید ہوجائے اور ذکر کرنے والے کا جسم وروح صرف خدا سے امید رکھے۔ اسی وجہ سے امام جعفر صادقٴ فرماتے ہیں: ’’انسان کو چاہئے کہ ہر ایک سے ناامید ہوکر صرف خدا سے امید رکھے۔‘‘

٣۔ یقین:
قبولیت دعا کی ایک شرط یہ ہے کہ ذکر کرنے والا یقین رکھتا ہو کہ خداوندِ عالم اس بات پر قادر ہے کہ جو چاہے کرسکتا ہے۔

٤۔ دعا میں محو ہو جانا:
یعنی خدا کے علاوہ کوئی ذریعہ نجات و پناہ گاہ نہ پائے اور یہ علم و یقین رکھے کہ مدد و نجات صرف خدا کے ہاتھ میں ہے۔ اس لئے کہ خدوندعالم نے جناب عیسی سے فرمایا: ’’دعامیںصرف مجھے یاد رکھو کہ میرے سوا تمہارے لئے کوئی پناہ گاہِ نجات نہیں ہے۔‘‘

٥۔ حمد و ثنا:
ذکر سے پہلے خدا کی حمد و ثنا بندگی کا اہم لازمہ ہے۔ چنانچہ حضرت علیٴ فرماتے ہیں: ’’دعا سے پہلے حمدو ثنا کرنی چاہئے‘‘۔ یعنی ہر وہ دعا کہ جس کے شروع میں خداوندعالم کی حمد وثنا نہ ہو وہ ناقص ومنقطع ہے۔

٦۔ اعترافِ گناہ:
یعنی اعتراف کیجیے کہ گناہوں نے آپ کو تقربِ الہی سے دور اور اسباب بلا کو فراہم کردیا ہے۔ پس اعتراف کیجئے اور خدا سے عفووبخشش کی دعا مانگئے۔

٧۔ طلبِ مغفرت:
یعنی جن گناہوں نے آپ کے دل کو سیاہ اور دعاؤں کوقید کردیا ہے ان کے لئے عفو و بخشش کی دعا مانگے۔ اس کیلئے کم از کم ستر مرتبہ ’’استغفر اللہ و اتوب الیہ‘‘ کہنا چاہئے ۔

٨۔ حضور قلب:
جب انپے باطن کو نجاست اور نفسانی شہوت سے پاک کرو گے تو حضورِ قلب حاصل ہوجائے گا۔ رسول خدا ۰ فرماتے ہیں:
نماز صرف اتنی مقدار میں قبول ہوتی ہے کہ جتنی مقدار میں انسان قلبی طور پر خدا کی طرف متوجہ رہتاہے ۔

٩۔ نیت:
مسائل و آداب ذکر خدا اور درود و توسل میں سب سے زیادہ اہم نیت ہے کیونکہ اگر نیت متحقق نہ ہو تو زبان حقیقی طور پر ذکرِ الٰہی میں مشغول نہیں ہوتی اور دل دوسری طرف لگا رہتا ہے۔ چنانچہ حضرت امام جعفر صادقٴ فرماتے ہیں ’’صلوات خلوص نیت کے ساتھ پڑھیے۔‘‘

١٠۔ وقت:
بعض اذکار کے لئے کوئی خاص وقت کسی خصوصی کیفیت کے ساتھ بیان ہوتا ہے۔ چنانچہ معصومین نے بعض صلوات کے لئے نمازِ صبح یا بعد نمازِ مغرب یا شب و روز یا جمعرات کے دن عصر کا وقت یا جمعہ کا دن یا شب جمعہ کا وقت معین فرمایا ہے ۔

١١۔ ذکر کا عدد:
ذکر کے عدد کا انتخاب کرنا، ورد کے اہم احکام میں سے ہے کہ جن کی طرف توجہ دینا چاہئے یعنی اسی تعداد و مقدار پر جو معصومین نے معین فرمائے ہیں‘ عمل کرے۔ جیسا کہ آنحضرت۰ نے صلواۃ کے لئے تین مرتبہ‘ دس مرتبہ اور سو مرتبہ اور ہزار مرتبہ کی مقدار معین فرمائی ہے ۔

فوائد صلوٰ ۃ
١۔ رسول خدا ۰ فرماتے ہیں: خداوند عالم سو صلوات کے عوض سوحا جتیں پوری کرتا ہے ۔
٢۔ بلند آواز میں صلوات پڑھنے سے نفاق دور ہوتا ہے ۔
٣۔ صلوات بھیجنا عمل کی پاکیزگی کا باعث ہے ۔
٤۔ جو شخص ایک مرتبہ صلوات بھیجتا ہے خدا وند عالم اس کے لئے رحمت و عافیت کا دروازہ کھول دیتا ہے ۔
٥۔ صلوات بھیجنے سے فقر وتنگدستی دور ہوتی ہے ۔
٦۔ انسان جب کسی چیز کو بھول جائے تو صلوات پڑھنے کی برکت سے وہ چیزیاد آجاتی ہے ۔
٧۔ صلوات کی برکت سے ہمیشہ دشمن اور شیطان ذلیل وخوار ہوتا ہے ۔
٨۔ جو شخص بھی رسول خدا ۰ پر صلوات بھیجتا ہے خدا وند عالم اور فرشتے اس پر صلوات بھیجتے ہیں ۔
٩۔ صلوات بھیجنے سے انسان فرشتوں کے مشابہ ہو جاتا ہے اور جو رحمت فرشتوں کو حاصل ہے اس میں سے کچھ حصہ اسے بھی نصیب ہوتا ہے ۔
١٠ ۔ انسان صلوات کے ذریعے مقام خُلت (یعنی خدا کی دوستی کے مرتبہ) تک پہنچ جاتا ہے۔ چنانچہ حضرت ابراہیم صلوات کی برکت سے خداوند عالم کے خلیل قرار پائے ۔
١١۔ قیامت کے دن حضرت رسول خدا ۰ کے نزدیک سب سے زیادہ بہتر اور قریب وہ شخص ہو گا جس نے دنیا میں آپ پر زیادہ صلوات بھیجی ہوگی ۔
١٢۔ رسول خدا ۰ نے حضرت علیٴ سے فرمایا: جو شخص مجھ پر صلوات بھیجتا ہے مجھ پر اس کی شفاعت واجب ہو جاتی ہے ۔
١٣۔ حضرت امام رضاٴ نے فرمایا: جو شخص اپنے گناہوں کا کفارہ ادا نہیں کر سکتا اسے چاہیے کہ کثرت سے صلوات پڑھے۔ محمد و آل محمد پر صلوات بھیجنے سے گناہ ختم ہوجاتے ہیں۔
١٤۔ امیرالمومنین علیٴ ابن ابی طالبٴ فرماتے ہیں: گناہوں کو محو کرنے کے لئے صلوات بھیجنا گویا پانی کے ذریعہ آگ بجھانے سے زیادہ بہتر ہے ۔

شہد کی مٹھاس
ایک دن حضرت محمد ۰ اور امیر المومنین علیٴ کھجور کے درختوں کے بیچ تشریف فرما تھے کہ شہد کی مکھی نے پیغمبر اکرم۰ کا طواف کرنا شروع کر دیا۔ پیغمبر اسلام۰ نے فرمایا: اے علی! کیا آ پ کو معلوم ہے شہد کی یہ مکھی کیا کہہ رہی ہے؟
حضرت علیٴ نے عرض کیا: آپ بہتر جانتے ہیں۔
پیغمبر اکرم۰ نے فرمایا: اس شہد کی مکھی نے آج ہماری دعوت کی ہے‘ وہ کہہ رہی ہے کہ میں نے کچھ شہد فلاں جگہ رکھ دیا ہے۔ حضرت علیٴ کو بھیج دیجیے تاکہ وہاں سے لے آئیں۔
امیر المومنینٴ اٹھے اور شہد لے آئے۔ رسول خدا ۰ نے فرمایا: اے شہد کی مکھی تمہاری غذا (پھول کا رس) تلخ ہوتی ہے پھر کس طرح وہ میٹھے شہد میں بدل جاتی ہے ؟
شہدکی مکھی نے کہا: یارسول اللہ! اس شہد میں مٹھاس آپ اور آپ کی آل کے مقدس ذکر سے ہے کیونکہ ہم شہد کی مکھیاں جب بھی شکوفہ سے رس چوستی ہیں تو اس وقت ہم پر الہا م ہوتا ہے کہ آپ پر تین مرتبہ درود بھیجیں تو ہم ’’اللہم صل علی محمد و آل محمد‘‘ کہتے ہیں۔ چنانچہ آپ پر صلوات بھیجنے کی برکت سے ہمارا شہد میٹھا ہو جاتا ہے۔

آگ بے اثر
ایک د ن ایک شخص بازار سے مچھلی خرید کر گھر لایا اور اپنی بیوی کو دی تاکہ کھانا تیار کرے۔ خاتون نے آگ روشن کی اور مچھلی کو آگ پر بھوننے کے لئے رکھ دیا۔ اس نے کافی دیر تک انتظار کیا لیکن مچھلی نہیں پکی اور آگ نے مچھلی پر کوئی اثر نہیں کیا۔ دونوں نے بہت تعجب کیا کہ آخر اس مچھلی پر آگ کا اثر کیوں نہیں ہورہا۔
دونوں رسول خدا ۰ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے اور پورا ماجرا بیان کیا۔ اللہ کے رسول۰ نے مچھلی سے فرمایا: ’’آگ تجھ پر کیوں اثر نہیں کر رہی ہے؟‘‘
اذن خدا سے مچھلی بولنے لگی اور کہا: یارسول اللہ! آپ کے ذکر مبارک کی بدولت یہ آگ مجھ پر اثر نہیں کرے گی ۔ میں فلاں دریا میں رہتی تھی، میں ایک دن اس میں تیر رہی تھی کہ ایک بہت بڑی کشتی میرے قریب سے گذری۔ اس کشتی کے ایک مسافر نے آپ پر اور آپ کے اہلبیتٴ پر صلوات بھیجی۔ میں نے یہ آواز سنی تو میں بہت خوش ہوئی اور میں بھی ’’اللہم صل علی محمد و آل محمد‘‘ کہنے لگی۔ اس وقت مجھے یہ آواز سنائی دی: ’’اے مچھلی تیرا بدن آگ پر حرام ہوگیا ہے‘‘ ۔ اسی وجہ سے آگ مجھ پر اثر نہیں کر رہی ہے۔

 

آپ کا تبصرہ شامل کریں

قارئین کے تبصرے

کوئی تبصرہ موجودنہیں ہے
*
*

امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک