مشرکینِ مکہ کی مکاریاں
تبلیغِ دین کے لئے رسول اللہ ۰ کے سامنے آنے والی رکاوٹوں میں ایک اہم مسئلہ مشرکین مکہ کی مکاریاں ہیں۔ ١٧ ربیع الاول کی مناسبت سے معروف محقق رسول جعفریان کی ایک تحقیق کا خلاصہ پیشِ خدمت ہے جس میں ان مکاریوں کا مختصر جائزہ لیا گیا ہے۔
جب رسولِ اکرم۰ پر اولین آیات کا نزول ہوا اور آپ۰ نے حضرت علیٴ، بی بی خدیجہ اور زید بن حارثہ کے ساتھ کعبہ کے نزدیک بیت المقدس کی طرف رُخ کر کے نماز ادا کی تو اسلام کا باقاعدہ آغاز ہوا۔ ایک مورخ زہری کہتا ہے: رسولِ خدا خفیہ طور پر لوگوں کو دعوت دیا کرتے تھے جس کے جواب میں بعض نوجوان اور کمزور عوام آپ۰ کی طرف مائل ہوگئے تھے یہاں تک کہ ان کی تعداد بڑھنے لگی؛ اس دور میں قریش کے سردار حضور۰ کے ساتھ برا رویہ نہیں رکھتے تھے۔ جب کبھی رسول اللہ ان کے قریب سے گزرتے تو آپ۰ کی طرف اشارہ کر کے کہا کرتے: ’’فرزندِ عبد المطلب آسمان کی باتیں کرتا ہے‘‘۔ یہ سلسلہ جاری رہا یہاں تک کہ آنحضور۰ نے ان کے خداوں کی برائی کرنا شروع کردی اور ان سے کہا کہ ان کے باپ دادا کفر و گمراہی میں تھے اور اب وہ جہنم میں ہیں۔ اس پر وہ غضبناک ہوئے اور آپ۰ کو اذیتیں دینے لگے۔ پہلے مرحلے میں مشرکوں کی جانب سے برا سلوک نہ کرنے کی بظاہر وجہ یہ تھی کہ قریش کو بت پرستی سے کوئی جذباتی لگاو اور لوگوں کے تبدیلی دین سے کوئی سروکار نہ تھا۔ ان کے لئے مشکل یہ تھی کہ کوئی ان بتوں اور اس سے زیادہ اہم ان کے آبائ و اجداد کی توہین کرنے لگے۔ چنانچہ وہ بعد میں رسول اللہ کو یہ پیشکش کرتے رہتے تھے کہ آپ۰ ان کے خداوں کو ان کے حال پر چھوڑ دیں تاکہ وہ بھی آپ۰ کو آپ۰ کے خدا کے ساتھ چھوڑ دیں۔ بتوں کی تائید نہ کرنے بلکہ بت پرستی کی سختی کے ساتھ مذمت کے حوالے سے جب اللہ کے رسول۰ کا اصلی پیغام ظاہر ہوا تو رسول۰ و اصحاب رسول۰ کے ساتھ مشرکوں کے تعلقات کشیدہ ہوگئے۔ خطے کے مخصوص قبائلی سسٹم کی وجہ سے قریش مجبور تھے کہ وہ ایک خاص حدود کے اندر رہتے ہوئے آنحضرت۰ کا مقابلہ کریں۔ وہ لوگ، اولادِ عبد المطلب کی جانب سے نبی اکرم۰ کی حمایت کی وجہ سے براہِ راست آپ۰ کو نقصان نہیں پہنچا سکتے تھے۔ بنابریں وہ لوگ ایسے وسائل کی فکر میں تھے جن سے استفادہ کرنے میں ان کو مکمل اختیار و آزادی حاصل ہو۔ چنانچہ وہ عام مسلمانوں کو اذیتیں دینے لگے۔ قریش کے اقدامات کا دو پہلووں سے جائزہ لیا جاسکتا ہے: تاریخ وار جائزہ یا موضوعی اعتبار سے جائزہ۔ ہم اختصار کے پیشِ نظر موضوعی اعتبار سے جائزہ لیں گے۔
١۔ صلح:
قریش کے لوگ تجارت پیشہ تھے اور اپنا کام جاری رکھنے کے لئے انہیں امن و امان کی ضرورت تھی، اسی لئے وہ اسلام کے مسئلے کو خاموشی سے ختم کرنا چاہتے تھے۔ البتہ رسولِ خدا کو ختم کرنا ممکن نہ تھا کیونکہ اس طرح خود قریش کے اندر ایک خون آشام اور لامحدود جنگ شروع ہوجاتی۔ بنابریں ہجرت سے پہلے تک وہ بات چیت کے ذریعے ہی مسئلے کو حل کرنا چاہتے تھے۔
صلح کے لئے انہوں نے رسول اللہ کو مال اور مقام کی پیشکش کی۔ ابنِ اسحق کہتا ہے: آیت ’’قُلْ مَا سَآَلْتُکُمْ مِنْ آَجْرٍ فَهوَ لَکُمْ اِنْ آَجْرِی اِلَّا عَلَی اللّٰه‘‘ مشرکوں کی مالی پیشکش کے انکار کے حوالے سے نازل ہوئی ہے۔ اسی کا کہنا ہے کہ قریش کے سرداروں نے اللہ کے رسول۰ کے پاس کسی کو بھیج کر مذاکرات کی درخواست بھی کی تھی۔ انہوں نے کہا: تم اپنی قوم پر ایسی چیز لے آئے ہو جو کوئی عرب نہیں لایا ہے۔ تم نے ہمارے اجداد اور ہمارے دین کو برا بھلا کہا، ہمارے خداوں کو دھتکارا، ہمارے داناوں کو احمق گردانا، ہمارے اتحاد کو پارہ پارہ کیا۔۔ اگر تم اپنی ان حرکتوں سے مال جمع کرنا چاہتے ہو تو ہم تمہیں اتنا دیں گے کہ تمہاری دولت سب سے زیادہ ہوجائے گی، اگر عظمت و شرافت کی تلاش میں ہو تو ہم تمہیں اپنی سرداری دیتے ہیں؛ اگر ملک اور بادشاہی کے خواہشمند ہو تو ہم یہ بھی کرنے کے لئے تیار ہیں، اگر تم پر جن کا غلبہ ہوگیا ہے تو ہم تمہارا علاج کراتے ہیں!
اللہ کے رسول۰ نے جواب میں فرمایا کہ ان میں سے کسی بھی چیز کے لئے انہوں نے نبوت کا دعوی نہیں کیا ہے بلکہ وہ صرف اللہ کے رسول ہیں جو ان کی نصیحت کے لئے تشریف لائے ہیں۔
آنحضرت۰ فرمایا کرتے تھے کہ اگر وہ سورج کو ان کے دائیں ہاتھ پر اور چاند کو ان کے بائیں ہاتھ پر رکھ دیں تو بھی وہ اپنی دعوت کے عمل کو اس کے غلبے تک جاری رکھیں گے۔
مشرکوں کی صلح کا ایک اور مقصد رسولِ خدا کو خاموش کرنا تھا۔ دراصل، جس زمانے میں اللہ کے رسول۰ نے اعلانیہ دعوت کا آغاز نہیں کیا تھا اور باضابطہ طور پر مشرکوں کے عقائد کی مذمت نہیں کی تھی، مشرکوں نے انہیں آزاد چھوڑا ہوا تھا۔ ٹکراو اس وقت ہوا جب آنحضرت۰ نے اپنی دعوت توحید کا علی الاعلان آغاز کیا اور بت پرستی کو غلط قرار دیا۔ مشرکین چاہتے تھے کہ وہ رسول اللہ کے کام کو محدود کردیں اور وہ ان کے خداوں سے کوئی مطلب نہ رکھیں۔ سیرت النبی کے لکھنے والوں اور قرآن کی تفسیر کرنے والوں کے بقول، سورہ کافرون قریش کے بعض سرداروں جیسے حارث بن قیس سہمی، عاص بن وائل، ولید بن مغیرہ اور امیۃ ابن خلف کے جواب میں نازل ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا: اے محمد! ایک سال تم ہمارے خداوں کی پرستش کرو ہم بھی ایک سال تمہارے خدا کی عبادت کریں گے۔ اس طرح ہم میں سے جو بھی حق پر ہوگا، دوسرا اس کی پیروی کر کے حق سے کچھ استفادہ کرلے گا۔ رسول اللہ ۰ نے خدا کے ساتھ شرک کرنے سے پرہیز کیا اور ان کی پیشکش کو مسترد کردیا۔ مشرکین اس بات پر بھی راضی ہوگئے کہ رسول اللہ صرف بتوں کو ہاتھ سے مس کرلیں اور جواب میں وہ ان کے خدا کی تائید کردیں گے۔ اس موقع پر سورہ کافرون نازل ہوئی اور توحید اور شرک کے راستوں کو یکسر جدا کردیا۔
ابنِ عباس کہتے ہیں: جس زمانے میں حضرت ابوطالبٴ زندگی کے آخری لمحات سے نزدیک ہونے لگے، تو قریش ان کے پاس آئے اور کہنے لگے: آپ دیکھ رہے ہیں کہ ہمارے اور آپ کے بھتیجے کے درمیان کیا ہو رہا ہے، اسے اپنے پاس بلائیں، اور کچھ ایسا کردیں کہ وہ ہمیں ہمارے دین کے ساتھ چھوڑ دے اور ہم اسے اس کے دین کے ساتھ؛ حضرت ابوطالب نے رسول اللہ کو بلایا اور مشرکوں کی باتیں گوش گذار کردیں۔ آنحضرت۰ نے فرمایا: اگر میری صرف ایک بات مان لیں تو عربوں پر حکومت حاصل کرلیں گے اور عجم ان کے دین کو قبول کرلیں گے۔ ابوجہل نے کہا کہ ہم دس باتیں ماننے کے لئے تیار ہیں۔ اللہ کے رسول۰ نے لاالہ الا اللہ کہنے اور بت پرستی کو ترک کرنے کی دعوت دی۔
رسولِ خدا کو صلح پر مجبور کرنے کے لئے مشرکوں کے اقدامات بہت وسیع تھے اور انہیں امید تھی کہ اپنی پیشکشوں کے ذریعے سے وہ آپ۰ کی سرعت کو کم کردیں گے۔ انہوں نے آنحضور۰ کو فریب دینے کی بھی کوشش کی۔ امام باقر علیہ السلام سے منقول ہے کہ سورہ بنی اسرائیل کی بعض آیات سورہ کافرون کی طرح کفار کی پیشکشوں کے حوالے سے نازل ہوئی ہیں۔ چنانچہ سورہ بنی اسرائیل میں فرماتا ہے: ’’اور نزدیک تھا کہ یہ لوگ آپ کو ہماری وحی سے ہٹا کر دوسری باتوں کے افترا پر آمادہ کردیں اور اس طرح یہ آپ کو اپنا دوست بنا لیتے۔ اور اگر ہماری توفیق خاص نے آپ کو ثابت قدم نہ رکھا ہوتا تو آپ (بشری طور پر) کچھ نہ کچھ ان کی طرف مائل ضرور ہوجاتے۔ اور پھر ہم زندگانی دنیا اور موت دونوں مرحلوں پر دہرا مزہ چکھاتے اور آپ ہمارے خلاف کوئی مددگار اور کمک کرنے والا بھی نہ پاتے۔‘‘ طبرسی نے اس آیت کے لئے پانچ شانِ نزول نقل کی ہیں۔ اور یہ تمام کسی نہ کسی طور پر عبادتی صلح پر مشرکوں کے اصرار کی خبر دیتی ہیں۔ قرآن میں متعدد آیات ایسی ہیں جو یہ بتاتی ہیں کہ مشرکین بہت زیادہ اصرار کیا کرتے تھے کہ رسولِ خدا اپنی جانب سے آیت گھڑ کر خدا کی طرف جھوٹی نسبت دے دیں۔ ان تمام آیات میں تاکید کی گئی ہے کہ اللہ کے رسول۰ کو نازل شدہ آیات میں کسی قسم کی تبدیلی کا کوئی حق نہیں ہے۔
ایک مقام پر اللہ تعالی نے اپنے رسول۰ سے کہا کہ مشرکوں کی کسی خواہش پر کان نہ دھریں: ’’پھر ہم نے آپ کو اپنے حکم کے واضح راستے پر لگا دیا۔ لہذا آپ اسی کا اتباع کریں اور خبردار جاہلوں کی خواہشات کا اتباع نہ کریں۔‘‘ اور ایک بار پھر فرمایا: ’’فَلَا تُطِعِ الْمُکَذِّبِيْنَ وَدُّوا لَوْ تُدْهنُ فَيُدْهنُونَ وَ لَاتُطِعْ کُلَّ حَلَّافٍ مَهيْنٍ، لہذا تم جھٹلانے والوں کی پیروی نہ کرو۔ وہ اس بات کو پسند کرتے ہیں کہ تم لچک دکھاو تاکہ وہ بھی لچک دکھائیں۔ اور کسی ذلیل، زیادہ قسم کھانے والے کی اطاعت نہ کرو۔‘‘
یہ آخری آیات خصوصی طور پر تصریح کر رہی ہیں کہ قریش اپنے اور رسول اللہ کے درمیان کشیدگی کو کم کرنا چاہتے تھے اور دوسرے مقام پر فرمایا: ’’فَاسْتَقِمْ کَمَا اُمِرْتَ وَ مَنْ تَابَ مَعَکَ وَ لَاتَطْغَوا اِنَّہُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِیر¾، وَ لَا تَرْکَنُوا اِلَی الَّذِینَ ظَلَمُوا فَتَمَسَّکُمُ النَّارُ وَ مَا لَکُمْ مِنْ دُونِ اللّٰه مِنْ آَوْلِيَائ ثُمَّ لَاتُنْصَرُونَ، لہذا آپ کو جس طرح حکم دیا گیا ہے اسی طرح استقامت سے کام لیں اور وہ بھی جنہوں نے آپ کے ساتھ خدا کی جانب رُخ کرلیا ہے۔ اور کوئی کسی طرح کی زیادتی نہ کرے کہ خدا سب کے اعمال کو خوب دیکھنے والا ہے۔ اور خبردار تم لوگ ظالموں کی طرف جھکاو اختیار نہ کرنا کہ جہنم کی آگ تمہیں چھولے گی اور خدا کے علاوہ تمہارا کوئی سرپرست نہ ہوگا اور تمہاری مدد بھی نہیں کی جائے گی۔‘‘ نیز فرمایا: ’’فَکَذٰلِکَ فَادْعُ وَ اسْتَقِمْ کَمَا اُمِرْتَ وَ لَاتَتَّبِعْ آَهوَائَهمْ، پس اسی طرح سے پکارو اور جیسا تمہیں حکم دیا گیا ہے اسی طرح سے استقامت سے کام لو اور ان کی خواہشات کی پیروی نہ کرو۔‘‘ اللہ نے اپنے رسول۰ کو حکم دیا کہ ’’فَاھْجُرْھُمْ ھَجْراً جَمِیلاً، مشرکوں سے مناسب طریقے سے دوری اختیار کرو۔‘‘ یہ حکم دعوت کے ابتدائی دور کا ہے اور شاید اس لئے ہے کہ توحید اور شرک کا راستہ مکمل طور پر ایک دوسرے سے جدا ہوجائے۔ مشرکین یہ نہیں چاہتے تھے کہ نبی اکرم۰ کی توحید اور ان کے شرک کے درمیان فرق اتنا نہ بڑھ جائے کہ مکہ کی سوسائٹی میں دراڑیں پڑ جائیں؛
٢۔ نفسیاتی مقابلہ:
رسولِ اکرم ۰ کو تکلیف پہنچانے لئے مشرکین آپ۰ کا مذاق اڑاتے تھے۔ ان کا اصل مقصد آنحضور۰ کی شخصیت کو توڑنا، انہیں گوشہ نشینی پر مجبور کرنا نیز عوام الناس کے سامنے آپ۰ کو ذلیل و رسوا کرناتھا تاکہ نہ آپ۰ معاشرے میں ابھر سکیں اور نہ عوام الناس آپ۰ کی جانب توجہ کرے۔ رسول اللہ ۰ جو کہ صاحبِ عزت اور سچے انسان تھے، پر اس سلوک کا ذہنی اثر کم نہیں ہوسکتا، اس کے باوجود آپ۰ نے صداقت و نجابت کی بنیاد پر اس تمسخر آمیز رویہ کا مقابلہ کیا۔ ابن سعد، ابن اسحق اور بلاذری نے تمسخر کرنے والوں کے ناموں کی فہرست بھی بیان کی ہے۔
ابن سعد نے جو دسیوں نام ذکر کئے ہیں ان میں سے صرف دو افراد بعد میں ایمان لائے جبکہ دوسرے لوگ یا تو جنگوں کے دوران مارے گئے یا فتحِ مکہ سے پہلے مر گئے۔ سیرت نویسوں نے اسے مذاق اڑانے والوں کے لئے حق میں رسول اللہ ۰ کی بددعا کا اثر قرار دیا ہے۔ ان میں سے اہم ترین افراد، ابوجہل، ابولہب، اسود بن عبد یغوث، ولید بن مغیرہ، عاص بن وائل، عُقبہ بن ابی معیط اور ابوسفیان ہیں۔ ابو لہب (عبد العزی بن عبد المطلب) جو کہ رسول اللہ کے دو مخالف ہاشمیوں میں سے ایک تھا، اس نے بعثت کے پورے دور میں فروغِ اسلام میں رکاوٹ ڈالنے کے لئے کسی کوشش سے دریغ نہیں کیا۔
بلاذری نے ایک واقعہ نقل کیا ہے کہ رسول اللہ ۰ کے ساتھ ابولہب کے تعلقات بعثت سے قبل بھی کشیدہ تھے کیونکہ جب ایک مرتبہ ابولہب اور ابوطالبٴ کے درمیان لڑائی ہوئی اور ابولہب ابوطالبٴ کے سینے پر سوار ہوگیا تو رسولِ خدا نے اسے ایک طرف گرادیا اور پھر جناب ابوطالبٴ اس پر سوار ہوگئے تھے۔ اپنی مخالفت کی وجہ بیان کرتے ہوئے ابولہب کہتا تھا: اے عبد المطلب کے فرزندو! یہ (اسلام) ایک بری چیز ہے، اس سے پہلے کہ دوسرے اس کا راستہ روکیں تم خود اس کو روک دو؛ کیونکہ اگر تم مسلمان ہوگئے تو دوسرے عربوں کے درمیان ذلیل ہوجاو گے اور تم نے اس کا دفاع کیا تو تم مارے جاو گے۔ اسی روایت میں ہے کہ وہ اس بات سے خوفزدہ تھا کہ بنی عبد المطلب تمام قریش اور عربوں کے مقابل نہ آجائیں۔
بہرصورت اعلانیہ دعوت کے آغاز کے بعد ابو لہب اور اس کی بیوی ام جمیل نے پوری طاقت کے ساتھ رسولِ خدا ۰ کے خلاف پروپیگنڈہ شروع کردیا یہاں تک کہ دشمنوں کی ریل پیل میں اللہ تعالی نے قرآن میں صرف اس کا اور اس کی بیوی ہی کا ذکر کیا ہے۔ جب اللہ کے رسول۰ لوگوں کو توحید کی دعوت دیا کرتے تھے تو وہ ان کے پیچھے چلتا رہتا، ان کو پتھر مارتا اور لوگوں سے کہتا: اس کی بات نہ مانو، وہ صابئی ہوگیا ہے، وہ جھوٹا ہے!
کہا گیا ہے کہ خدا نے ابولہب کی بیوی کو سورہ تبّت میں اس لئے حمالۃ الحطب کہا ہے کہ وہ رسول اللہ ۰ کے راستے میں کانٹے بچھایا کرتی تھی۔ امِ جمیل نے جب سنا کہ اس کے اور اس کے شوہر کے بارے میں آیات نازل ہوئی ہیں تو اس نے رسول اللہ کی ہجو میں یہ شعر کہے:
مُذَمَّماً عصَيْنا وَ اَمْرَه آَبَيْنا وَ دِینَه قَلینَا
مذمت شدہ انسان نے ہماری نافرمانی کی اور ہم نے اس کی دعوت کو قبول کرنے سے انکار کیا اور اس کے دین نے ہم کو غضبناک کردیا ہے‘‘۔
ممکن ہے کہ مذمّم کا لفظ مشرکوں نے لفظ محمّد کے مقابلے میں جعل کیا ہو۔ ابوسفیان بن حارث بن عبدالمطلب رسول اللہ کا ایک اور رشتہ دار تھا جس نے زبردست دشمنی کا مظاہرہ کیا۔ وہ اشعار کے ذریعے سے اسلام اورمسلمانوں کی ہجو کیا کرتا تھا۔ فتح مکہ کے موقع پر اس نے اظہارِ اسلام کر دیا تھا۔ امیہ بن خلف بھی تمسخر کرنے والوں میں شامل تھا۔ کہتے ہیں کہ سورہ ہمزہ اسی کے بارے میں نازل ہوا۔
عقبہ بن ابی معیط اور اُبَيَّ بن خلف آپس میں گہرے دوست تھے؛ جب اُبَيّ نے سنا کہ عقبہ رسول اللہ کے پاس بیٹھا ہوا ہے تو وہ سخت برآشفتہ ہوا اور بولا: میں تم سے صرف اس صورت میں بات کروں گا جب تم رسول کے آنے پر ان کے چہرے پر آبِ دہان ڈالو گے۔ اور اس نے ایسا کردیا! اللہ تعالی نے اس کے بارے میں فرمایا: ’’جس دن ظالم اپنے ہاتھوں کو دانتوں سے کاٹے گا اور کہے گا: اے کاش میں نے وہی راستہ اختیار کیا ہوتا جو رسول نے اختیار کیا تھا۔ اے کاش میں نے فلاں کو اپنا دوست نہ بنایا ہوتا‘‘۔
جب ایک موقع پر ابوجہل نے اپنے ایک قرض خواہ کا قرض ادا کرنے میں لیت و لعل سے کام لیا تو اس نے فریادِ استغاثہ بلند کردی۔ مشرکوں نے اس کا مذاق اڑایا اور اسے مسجد کے نزدیک بیٹھے ہوئے ایک شخص سے رجوع کرنے کو کہا جو رسول اللہ ۰ کے علاوہ کوئی اور نہ تھا۔ رسول اللہ اٹھے اور ابوجہل کے گھر تشریف لے گئے اور اس سے کہا کہ اس شخص کا حق اسے دیدے۔ ابوجہل نے بے ساختہ آپ۰ کی بات پر عمل کردیا۔
تمسخر کا یہ سلسلہ اتنا وسیع تھا کہ اللہ تعالی نے آپ۰ سے فرمایا: ’’اِنَّا کَفَيْنَاکَ الْمُسْتَھْزِئِيْنَ۔‘‘ یعنی استہزا کرنے والوں کے مقابلے میں ہم آپ کے لئے کافی ہیں۔
دوسری آیات میں بھی اللہ تعالی نے مشرکوں کے تمسخر کی وجہ سے اپنے رسول کو تسلی دی ہے: ’’آپ سے پہلے جو دوسرے رسول تھے ان کا بھی (یہ کافر) مذاق اڑاتے تھے‘‘۔ یہ عبارت تین بار دہرائی گئی ہے اور اس میں رسول اللہ ۰ کو تسلی دینے کے علاوہ تمسخر کرنے والوں کے لئے ایک دھمکی بھی ہے کیونکہ آگے ارشاد ہوتا ہے: ’’لیکن جس عذاب کا یہ مذاق اڑایا کرتے تھے وہ ان پر نازل ہوکر رہا‘‘۔
آپ۰ کو کذاب، ساحر اور سب سے بدتر مجنون کی نسبت دی جاتی تھی۔ مشرکین کا مقصد یہ تھا کہ آیات قرآنی کی سنجیدگی اور تقدس کا خاتمہ کردیں اور اللہ کے رسول۰ کو ایک جن زدہ اور جھوٹا شخص قرار دیدیں۔
اللہ تعالی نے یہاں پر بھی اپنے رسول۰ کو مطمئن کرنے کے لئے گذشتہ امتوں کے ساتھ پیش آنے والے واقعات کا تذکرہ کیا: ’’اسی طرح ، گذشتہ امتوں پر کوئی نبی مبعوث نہیں ہوا مگر انہوں نے کہا: یہ جادوگر یا دیوانہ ہے۔
کیا اس کام کی انہوں نے ایک دوسرے کو سفارش کی تھی؟ نہیں، یہ خود سرکش لوگ تھے۔ لہذا ان سے منہ پھیر لو، کوئی آپ کو ملامت نہیں کرے گا‘‘۔
تمسخر کا ایک اور مورد یہ تھا کہ رسول اللہ ۰ کا کوئی بیٹا نہیں ہے اور آپ۰ ’’ابتر‘‘ ہیں۔ عاص بن وائل (عمرو بن عاص کا باپ) نے یہ مسئلہ چھیڑا تھا۔ خدا نے اس کے جواب میں سورہ کوثر نازل فرمائی اور آپ۰ کے بدخواہوں کو ابتر قرار دیا۔ ایک اور مذاق اڑانے والا حکم بن ابی العاص بھی تھا جو رسول اللہ ۰ کے پیچھے چل پڑتا اور منہ بنایا کرتا تھا۔ بعض مقامات پر یہ بھی ہے کہ وہ لوگ قیامت کے عقیدے کو رسول کا ایک فریب قرار دیتے اور اسی بنا پر مذاق اڑایا کرتے تھے۔
٣۔ سیاسی مقابلہ:
جو موارد ’’نفسیاتی مقابلہ‘‘ کے ضمن میں بیان ہوئے ہیں، ان میں ’’سیاسی مقابلہ‘‘ کے نمونے بھی تلاش کئے جاسکتے ہیں۔ ہم یہاں پر بعض خاص مثالیں بیان کریں گے۔ درحقیقت جو ملاقاتیں مشرکین ابوطالب کے ساتھ کیا کرتے تھے اور ان کے ذریعے سے رسول اللہ ۰ پر دباو ڈالنا چاہتے تھے وہ سب مشرکوں کے سیاسی مقابلہ میں شامل ہیں۔
رسولِ خدا نے اپنے کام کو جاری رکھا یہاں تک کہ کامیابیاں حاصل ہونے لگیں۔ قریش پھر ابوطالبٴ کے پاس آئے اور شکوہ کیا لیکن جناب ابوطالب نے رسول اللہ کو نہیں روکا۔ قریش پھر ان کی خدمت میں حاضر ہوئے اور پیشکش کی کہ وہ عمارۃ بن ولید کو لے لیں اور محمد۰ کو ان کے حوالے کردیں۔ جناب ابوطالبٴ ان کی یہ پیشکش سن کر بہت ناراض ہوئے اور بولے: تم اپنے بچے مجھے دینا چاہتے ہو تاکہ میں ان کی پرورش کروں اور میرے بیٹے کو مجھ سے چھیننا چاہتے ہو تاکہ اسے قتل کردو؟ خدا کی قسم یہ ناممکن ہے۔
ابن اسحق مزید کہتا ہے: جب قریش نے یہ صورتحال دیکھی تو انہوں نے فیصلہ کرلیا کہ ہر طائفے سے کہہ دیا جائے کہ وہ اپنے مسلمان ہوجانے والوں کو اذیتیں دینا شروع کریں۔
ماننا پڑے گا کہ حضرت ابوطالبٴ نے قریش کی سیاست کے مقابلے میں بہت عاقلانہ موقف اختیار کیا۔ انہوں نے اپنے اسلام کو پوشیدہ رکھتے ہوئے، رسولِ خدا کی بہت تعریف و تمجید کی اور بہت خوبصورت اشعار کہہ کر قریش کو آنحضرت۰ کے مقابلے میں غلط موقف اختیار کرنے سے باز رکھنے کی کوشش کی۔ اسی طرح بعض دوسرے اشعار میں عبدمناف کی اولاد میں سے ان لوگوں کی مذمت کی جنہوں نے آنحضور۰ کی حمایت کے بجائے مخالف موقف اختیار کر لیا تھا۔ جناب ابوطالبٴ نے قریش کو مخاطب قرار دیا اور ان سے کہا کہ قریش کے تمام افتخارات فرزندانِ عبد مناف کی وجہ سے ہیں اور بنو عبد مناف کی تمام عظمت بنو ہاشم سے ہے اور بنو ہاشم کی عزت محمد۰ سے ہے۔
و ان فخرت یوماً فانَّ محمدا
هو المصطفی من سرّها و کریمها
’’اگر کسی دن بنو ہاشم کسی پر فخر کرنا چاہیں تو محمد مصطفی ہی سر فہرست اور برگزیدہ ہے۔‘‘
قریش کے لوگ رسولِ خدا ۰ کو مکہ کی سوسائٹی اور خصوصاً قریش کے درمیان شگاف اور نفاق کا باعث قرار دیتے تھے۔ کیونکہ قریش اپنے قبیلے، تجارتی مفادات اور سیاسی و عبادتی رعب و دبدبے کی حفاظت کے لئے اپنے درمیان اتحاد کو ایک بہت ضروری امر سمجھتے تھے۔
قریش کے لوگ جناب ابوطالبٴ سے کہا کرتے تھے کہ آپ کے بھتیجے نے ہمارے امور کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا اور ہماری وحدت و اتحاد کو پارہ پارہ کردیا ہے۔
ابوجہل رسولِ خدا کے ساتھ اپنے سخت برتاو کی توجیہ کرتے ہوئے کہتا تھا: ’’محمد تم لوگوں کے درمیان دشمنی پیدا کرنا چاہتا ہے۔‘‘
وہ یہ بھی کہتے تھے کہ اس نے ہماری عورتوں اور بچوں کو تباہ کردیا ہے۔
عوام الناس کو رسول اللہ ۰ کے خلاف اُکسانا بھی قریش کی ایک اور سیاست تھی۔ لوگ بتوں سے محبت کرتے تھے جن کی توہین ان کے لئے ناقابلِ تحمل تھی۔ قریش کے سردار اس بات کی طرف اشارہ کرتے کہ محمد۰ بتوں پر اعتقاد کو درست نہیں سمجھتے، ہمارے افکار کو حماقت قرار دیتے ہیں اور ہمارے آبائ و اجداد کو گمراہ اور جہنمی شمار کرتے ہیں۔ وہ کوشش کیا کرتے تھے کہ آپ۰ کو مکہ والوں کے احمقانہ جذبات کے روبرو کھڑا کردیں۔
علاوہ ازیں قریش مکہ آنے والے ہر شخص سے کہا کرتے: اس نے شراب خوری کو حرام، زنا کو ناجائز اور جو کچھ عرب انجام دیتے ہیں ان سب کو غلط قرار دیا ہے۔ تم لوگ چلے جاو، اگر ان کاموں کے کرنے سے تم پر کوئی گناہ ہے تو ہم اس کی ذمہ داری قبول کرتے ہیں۔ کہا گیا ہے کہ آیت ’’وَ لَيَحْمِلَنَّ آَثْقَالَهمْ وَ آَثْقَالاً مَعَ آَثْقَالِهمْ‘‘ مشرکوں کے اسی رویے کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔
یاد رہے کہ ان حرکتوں کے ذریعے سے قبیلہ قریش مکہ کی فضا کو رسولِ خدا کے خلاف اُکسانے اور اس کی حفاظت کرنے میں کامیاب رہا۔سرداروں کی طاقت، عام لوگوں کی عقل و فکر کی صاحبانِ مال و مقام سے وابستگی نیز سیاسی چالبازیوں میں قریش کی مہارت اس بات کا سبب بنی کہ رسولِ خدا مکہ میں عوامی اثر و رسوخ پیدا نہ کرسکے اور نہ عوام الناس کو اسلام کی جانب جذب کر پائے۔
٤۔ جسمانی اذیتیں:
مکہ کی قبائلی ساخت کی وجہ سے رسول اللہ کے مخالفین انہیں بلال و عمار کی طرح بہ آسانی اذیتیں نہیں دے سکتے تھے۔ اور نہ ان کے قتل کا فیصلہ کچھ آسان تھا۔ اس کی اصل وجہ جناب ابوطالب اور حضرت عبدالمطلب کے دوسرے بیٹوں کی جانب سے آپ۰ کی قطعی حمایت تھی۔ اس کے باوجود، غیر منظم طور پر رسولِ خدا پر بھی جسمانی اذیتوں کا سلسلہ جاری رہا؛ اس میں تیزی اس وقت آئی جب حضرت ابوطالبٴ کا انتقال ہوگیا۔ سیرت النبی پر لکھنے والوں نے تاکید کی ہے کہ جناب ابو طالبٴ کی وفات کے بعد ہی مشرکوں کو رسولِ خدا کے خلاف کھل کر کام کرنے کا موقع مل سکا۔
ایک رات رسول اللہ حضرت ابوطالبٴ کو نظر نہیں آئے تو آپٴ نے سب بھائیوں کو جمع کیا اور ان سے کہا کہ مسجد الحرام چلو اور وہاں قریش کے ایک ایک سردار کے پاس جاکر بیٹھ جاتے ہیں جن میں ابوجہل بھی شامل ہے۔ چنانچہ اگر محمد۰ کو قتل کر دیا گیا ہے تو ان لوگوں کو بھی نہیں بچنا چاہئے۔ انہوں نے ایسا ہی کیا یہاں تک کہ زید بن حارثہ آیا اور اس نے بتایا کہ وہ رسولِ خدا کے ساتھ تھا۔ جناب ابوطالب نے کہا کہ وہ جب تک اپنی آنکھوں سے انہیں دیکھ نہیں لیں گے اپنے گھر نہیں جائیں گے۔
اگلے دن جناب ابوطالبٴ نے قریش کے بزرگوں کو اپنے ارادے کے بارے میں بتا دیا جس کے بعد قریش کی ہمت جواب دے گئی اور سب سے بڑھ کر ابوجہل کی۔
عُقبہ بن ابی معیط نے ایک بار جسارت کی اور اپنی عبا حضور۰ کے گلوئے مبارک میں ڈال کر آپ۰ کو قتل کرنے کی حد تک گلا گھونٹنے کی کوشش کی۔ وہ جنگ بدر میں اسیر ہوگیا اور آپ۰ نے اسے قتل کرڈالا کہ وہ مکہ میں اسلام کے ساتھ سخت دشمنی کا مظاہرہ کر چکا تھا۔ آپ۰ نے فرمایا: اس عقبہ نے جب کہ میں سجدہ میں تھا اس طرح میرا گلا دبایا تھا کہ میں نے محسوس کیا کہ گویا میری آنکھیں حلقوں سے باہر نکل آئی ہیں۔ اسی طرح یہ بھی کہا گیا ہے کہ عقبہ ابولہب کے ساتھ مل کر فضلہ اور غلاظتیں آپ۰ کے دروازے پر ڈال دیتا تھا۔
طعیمہ بن عدی اور نضر بن حارث بھی اسی وجہ سے قتل کئے گئے جس کی بنیاد پر عقبہ کو اسیری کے بعد قتل کیا گیا تھا۔ یہ بھی ان لوگوں میں شامل تھے جنہوں نے رسولِ خدا کو بہت اذیتیں دی تھیں۔ ابوجہل نے بھی کئی مرتبہ حضور۰ کو قتل کرنے کا فیصلہ کیا لیکن اس پر عمل نہ کرسکا۔ یہاں تک کہ ایک بار قریش نے قسم اٹھائی کہ اگر وہ حضور۰ کو قتل کردے تو وہ اس کو عبد مناف کے بیٹوں کے حوالے نہیں کریں گے۔
رسول خدا پر مٹی بھی ڈالی گئی۔ حضور۰ گھر پر تشریف لے گئے جہاں بیٹی نے روتے ہوئے آپ۰ کے سر کو دھویا۔ واضح ہے کہ یہ رویہ، جناب ابوطالبٴ کی وفات کے بعد پیش آیا تھا۔ ایک اور روایت میں ہے کہ ابوجہل رسولِ خدا کی نماز میں رکاوٹ ڈالا کرتا تھا۔ اللہ تعالی نے اس کی اس حرکت کے بارے میں فرمایا: ’’آَرَآَيْتَ الَّذِيْ يَنْهی عَبْداً اِذَا صَلّی‘‘ (یعنی کیا تم نے اس کو دیکھا ہے جو بندے کو روکتا ہے اس وقت جب وہ نماز ادا کرتا ہے)
اللہ تعالی نے سورہ انفال (جو کہ مدینہ میں نازل ہوا) میں قریش کے اس فیصلے کا ذکر کیا ہے کہ جب ان کے سامنے تین تجویزیں تھیں؛ رسولِ خدا کو قید کر دینا، مکہ سے نکال دینا یا انہیں قتل کر دینا۔ ان کی بحث و گفتگو کا نتیجہ وہی قتل کا فیصلہ تھا۔ ابوجہل نے کہا کہ اگر وہ یہاں سے چلے گئے اور کچھ نوجوانوں نے ان کی میٹھی زبان سے باتیں سن لیں تو وہ اس کی پیروی کر لیں گے اور ہم ان کے حملے سے محفوظ نہیں رہیں گے۔
ابن ہشام کے بقول رسول اللہ ۰ پر سخت ترین دن وہ تھا جب وہ گھر سے باہر آئے اور جس کسی سے ان کا سامنا ہوا، سب نے ان کی تکذیب کی اور انہیں تکلیف پہنچائی۔ اسی روایت کے مطابق پریشانی کے عالم میں گھر واپس آئے اور اپنے اوپر ایک چادر لپیٹ لی اور یہیں پر سورہ مدثر نازل ہوئی۔ یہ کہنا پڑے گا کہ آخری برسوں میں مشرکوں کی جانب سے اذیتیں دینے میں شدت کی وجہ حضرت ابوطالبٴ کی وفات کے علاوہ رسولِ اکرم ۰ کی جانب سے قبیلوں کے درمیان تبلیغِ اسلام میں تیزی بھی تھی۔
٥۔ علمی مقابلہ:
اس جدید دعوت کا علمی سطح پر مقابلہ کرنے کے لئے قریش لازمی علمی توانائی سے بہرہ مند نہیں تھے۔ کیونکہ بنیادی طور پر افکارِ جاہلیت میں یہ طاقت نہیں تھی کہ سوسائٹی کے اندر غور و فکر اور تفکر و تعقل کا جذبہ پیدا کرسکے۔ اس کے باوجود، قریش اپنی سی ہر کوشش کیا کرتے تھے اور ہر چیز سے استفادہ کرنے پر تیار رہتے تھے تاکہ اسلام کے روز افزوں فروغ کے آگے بند باندھ سکیں۔ اس حوالے سے انہوں نے علمی مقابلہ کرنے سے بھی (البتہ مدینہ کے یہودیوں سے استفادہ کرتے ہوئے) دریغ نہ کیا۔
چنانچہ قریش نے رسولِ اکرم۰ کی نبوت کا انکار کرنے کے لئے اس بات کا دعوی کیا کہ اللہ کے رسول۰ جس بات کو وحی کہتے ہیں، وہ دراصل وحی الہی نہیں ہے بلکہ وہ باتیں ہیں جو اہلِ کتاب نے انہیں سکھائی ہیں۔ ایک ضعیف روایت میں ’’بلعام‘‘ نامی ایک شخص کا ذکر ہے جو عجمی تھا اور مکہ میں مقیم تھا۔ قریش نے دعوی کیا تھا کہ رسولِ خدا کا اس کے پاس آنا جانا ہے۔ ایک اور روایت اس شخص کو ’’اعبدۃ بن حضرمی‘‘ قرار دیتی ہے جو اہل کتاب ہے۔ عکرمہ کہتا ہے کہ نبی اکرم۰ بنی مغیرہ کے ایک غلام کے سامنے قرآن پڑھا کرتے تھے جس کا نام مقیس تھا۔ ایک روایت میں اس مقیس سے مراد اسی مذکورہ بالا ابن حضرمی کو قرار دیا گیا ہے۔ ایک اور روایت میں اسے سلمان فارسی پر منطبق کیا گیا ہے جو کہ درست نہیں ہوسکتا، کیونکہ سلمان فارسی مدینہ میں اللہ کے رسول۰ سے واقف ہوئے تھے جب کہ سورہ نحل مکی سورہ ہے۔ ایک اور روایت کہتی ہے: جب مکہ والوں نے رسولِ خدا ۰ کو تکلیفیں دینا شروع کیں تو وہ بنی مغیرہ کے غلام کہ جسے ابو یسر کہتے تھے، کے پاس آئے؛ وہ توریت و انجیل سے واقف تھا۔ جب مشرکوں نے یہ دیکھا تو الزام لگا دیا کہ وہی آپ۰ کو سکھاتا ہے۔
درج بالا روایات میں غور و فکر سے معلوم ہوتا ہے کہ بلعام اور بنی مغیرہ کا ایک غلام قریش کے موردِ نظر تھا۔ ابن اسحق نے متعلقہ شخص کا نام ’’جبر‘‘ بتایا ہے۔ اس روایت کا تعلق بھی بنی مغیرہ کے اسی غلام سے ہونا چاہئے جس کا ذکر تمام روایات میں مختلف انداز سے موجود ہے۔ اس کے نام و نشان میں یہ اختلاف اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ یہ بے چارہ غلام جو کہ اس قدر بدقسمت تھا کہ صحیح طور پر پہچانا بھی نہ جاسکا، وہ کس طرح سے ایسے افکار ایجاد کرسکتا ہے؟ ابن اسحق نے ایک اور روایت میں کہا ہے کہ مشرکین کہتے تھے کہ یمامہ کے رہنے والے رحمان نامی ایک شخص نے تمہیں یہ سب سکھایا ہے۔
جو جواب قرآن مجید نے مشرکوں کے اس رویے کا دیا ہے، وہ ایک علمی اور معقول جواب ہے؛ اللہ تعالی نے مشرکوں کے الزام کو نقل کرتے ہوئے آگے چل کر فرمایا: ’’لِسَانُ الَّذِيْ يُلْحِدُونَ اِلَيْه آَعْجَمِيّ وَ هذَا لِسَان عَرَبِيّ مُبِيْن جس کی طرف یہ اشارہ کرتے ہیں اس کی زبان تو عجمی ہے جبکہ یہ واضح عربی زبان ہے۔‘‘ اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ مشرکوں کا خاص موردِ نظر شخص عجمی ۔۔ اور بظاہر رومی۔۔ تھا۔ قرآن کا اہم ترین (معجزاتی) پہلو اس کا ادب ہے اور خدا نے اسی کو مدِنظرقراردیتے ہوئے قریش کے اس اعتراض کو کہ وہ اس کے مضامین کو ایک عجمی شخص سے نسبت دیتے ہیں، مسترد کر دیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ قرآن مجید کے مضامین کی وسعت کو مکہ میں مقیم کسی ایسے نصرانی سے نسبت دی ہی نہیں جاسکتی جس کا عرب جاہلیت کے آثار میں کوئی ذکر نہیں ہوا۔
انبیائ کے قصوں کے باب میں قرآن مجید کی توریت کے ساتھ مشابہت بھی مشرکین کے مدِنظر رہی ہے۔ اللہ تعالی نے اس بات کو اس طرح سے بیان کیا ہے: ’’اور کافروں نے کہا کہ یہ (قرآن) سوائے جھوٹ کے جسے اس نے خود گھڑ لیا ہے، اور ایک گروہ نے اس پر اس کی مدد کی ہے، کچھ نہیں ہے؛ بے شک جو کچھ یہ کہہ رہے ہیں، وہ ستم اور باطل ہے۔ اور انہوں نے کہا کہ یہ افسانہ ہائے پارینہ ہیں جو ہر صبح و شام اس کو املا کرائے جاتے ہیں اور وہ اسے لکھ لیتا ہے‘‘۔ یہ آیت اساطیر الاولین کے الزام کا تعلق ایسے لوگوں کے ساتھ بتاتی ہے جو بزعمِ مشرکین نبی اکرم۰ کے استاد تھے۔ قریش کے لوگ قرآنی قصوں کو اہلِ کتاب کے قصوں کی مانند سمجھتے تھے جنہیں وہ ’’اہل الکتاب الاول‘‘ کے نام سے پہچانتے تھے۔ قرآن اور توریت کے قصوں کی مشابہت کے حوالے سے ہم کہیں گے کہ: دراصل یہ دونوں آسمانی کتابیں ہیں اور ان کے درمیان شباہت ایک طبیعی امر ہے، لیکن اہم بات دونوں کے بیان کردہ قصوں میں موجود اختلاف ہے اور دوسرے یہ کہ انبیائ کی عصمت کے حوالے سے دونوں کتابوں کے رویے میں بہت فرق ہے۔ جو غلط باتیں توریت میں انبیائ سے منسوب کی گئی ہیں وہ کسی بھی صورت میں قرآن میں نظر نہیں آتیں اور قرآن کی دعوتِ توحید بہت صریح اور واضح ہے۔
رسول اللہ ۰ کی لکھنے اور پڑھنے سے ناآشنائی اسی قسم کے بے بنیاد الزامات کو دور کرنے کے لئے تھی۔ علاوہ ازیں قرآنی آیات کا ایک بڑا حصہ، اور خصوصاً انبیائ کے قصے مکہ میں نازل ہوئے ہیں، کہ جب یہودِ مدینہ کی ثقافت و تہذیب سے رسولِ خدا کی کوئی معمولی سی بھی آشنائی نہیں تھی۔ قریش کو اس بات کا ادراک تھا کہ رسول اللہ ۰ ایک ایسے دین کی ترویج کر رہے ہیں جو درحقیقت ادیانِ آسمانی کی ایک نئی قسم ہے، لہذا ان کے ذہن میں یہودیوں سے فائدہ اٹھانے کا خیال آیا۔ چنانچہ انہوں نے نضر بن حارث کو کہ جسے قریش کی علمی شخصیت کہنا چاہئے، مدینہ کے یہودیوں کے پاس بھیجا تاکہ ا س مسئلے کے بارے میں ان سے رائے طلب کرے۔ نضر بن حارث‘ عُقبہ بن ابی مُعیط کے ہمراہ یہودیوں کے پاس گیا اور ان سے رسول اللہ کے اوصاف بیان کئے۔ یہودیوں نے کہا: اس سے تین چیزوں کے بارے میں پوچھو، اگر جواب دے دیا تو اللہ کا نبی ہے وگرنہ دھوکے بازی کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے۔ ان کے سوالات کے جواب میں قرآن میں سورہ کہف اور سورہ بنی اسرائیل کی آیات نازل ہوئیں۔
یاد رہے کہ قریش کے لوگ اسلام کی حقیقت اور اس کی سچائی کی تلاش میں نہیں تھے؛ وہ کوئی ایسا راستہ (کہ جسے قرآن نے مکر کا نام دیا ہے) ڈھونڈ رہے تھے جس کے ذریعے وہ نبی اکرم۰ کی تبلیغی کوششوں کو بے اثر کر سکیں۔ ان میں سے ایک یہی نضر بن حارث تھا جس کے بارے میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے: ’’اور اس وقت کو (یاد کرو) کہ جب انہوں نے کہا: خدایا! اگر اس کا تیری جانب سے آنا حق ہے تو ہم پر آسمان سے پتھروں کی بارش برسا دے یا دردناک عذاب بھیج دے۔‘‘ قیامت کے حوالے سے مشرکوں کا زیادہ تر مسئلہ توحید کی نسبت سے تھا۔ قیامت کے حوالے سے ان کا تردد اور موت کے بعد کی زندگی پر ان کا تعجب قرآن مجید کی چند آیات میں ذکر ہوا ہے۔
ایک اور علمی اعتراض جو سیرت میں آیا ہے، ابنِ زِبعری کے بارے میں ہے۔ جب یہ آیت نازل ہوئی کہ: ’’تم لوگ اور جن چیزوں کی تم پرستش کرتے ہو، وہ جہنم کا ایندھن ہے۔ تم جہنم میں جاو گے‘‘، تو ابن زبعری نے اعتراض کیا اور کہا: اگر ایسا ہے تو ہم فرشتوں کی پرستش کرتے ہیں، یہود عزیر کی اور نصاری حضرت مسیح کی؛ لہذا یہ بھی جہنم میں ہوں گے۔ رسول اللہ ۰ نے جواب میں فرمایا: البتہ اس قسم کے افراد بھی اگر اس بات کو پسند کریں کہ خدا کے علاوہ وہ بھی معبود بن جائیں تو وہ بھی اپنے عبادت کرنے والوں کے ساتھ یعنی جہنم میں ہوںگے۔ اللہ تعالی نے بھی اس توہم کو دور کرنے کے لئے آیات میں آگے چل کر فرمایا: جن کے بارے میں ہم نے پہلے ہی مقرر کردیا ہے کہ ان کے ساتھ نیکی کریں گے، وہ جہنم سے دور ہیں‘‘۔