جہاد کرنے والوں کا درجہ
سورہ توبہ آیت ١٩ تا ٢٢
آَ جَعَلْتُمْ سِقَايَة الْحَآجّ ِ وَ عِمَارَۃَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ کَمَنْ اٰمَنَ بِاللّٰه وَ الْيَوْمِ الْاٰخِرِ وَ جَاهدَ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰه۔ لَايَسْتَونَ عِنْدَ اللّٰه۔ وَ اللّٰه لَايَهدِی الْقَوْمَ الظَّالِمِيْنَ۔ اَلَّذِینَ اٰمَنُوا هاجَرُوا وَ جَاهدُوا فِيْ سَبِيْلِ اللّٰه بِاَمْوَالِهمْ وَ اَنْفُسِهمْ اَعْظَمُ دَرَجَة عِنْدَ اللّٰة۔ وَ اُولٰئِکَ همُ الْفَائِزُونَ۔ يُبَشِّرُهمْ رَبُّهمْ بِرَحْمَة مِنْه وَ رِضْوَانٍ وَ جَنّٰتٍ لَهمْ فِيْها نَعِيْم مُقِیم خَالِدِینَ فِيْها اَبَداً اِنَّ اللّٰه عِنْدَه اَجْر عَظِيْم
ترجمہ:
آیا تم نے حاجیوں کو پانی پلانا اور مسجد الحرام کو تعمیر اور آباد کرنا اس شخص (کے عمل) کی مانند قرار دیا ہے جو خدا اور آخرت کے دن پر ایمان لایا اور اس نے خدا کی راہ میں جہاد کیا ہے؟ یہ اللہ کے نزدیک برابر نہیں ہوسکتے، اور اللہ تعاليٰ ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں کرتا۔ جو لوگ ایمان لے آئے ہجرت کی اور اللہ کی راہ میں اپنے اموال اور جانوں کے ساتھ جہاد کیا وہ اللہ کے نزدیک بہت بڑا درجہ رکھتے ہیں اور یہی لوگ کامیاب ہیں۔ ان کا پروردگار انہیں اپنی طرف سے رحمت، رضامندی اور بہشت کے ان باغوں کی نوید دیتا ہے جن میں ان کے لئے ابدی نعمتیں ہیں۔ وہ ان میں تاابد رہیں گے۔ یقینا خداوندِ عالم کے پاس بہت بڑا اجر ہے۔
نکات:
٭ رسولِ اکرم ۰ کے چچا جنابِ عباس اور جنابِ شیبہ ایک دوسرے پر فخر جتا رہے تھے۔ عباس کہنے لگے، ’’یہ میرے لئے نہایت ہی فخر کی بات ہے کہ میں حاجیوں کو پانی پلاتا ہوں‘‘ اور شیبہ کہنے لگے کہ ’’میں خانہ کعبہ کا کلیدبردار ہوں‘‘۔ اس پر حضرت علی نے فرمایا: ’’میں اس بات پر فخر کرتا ہوں کہ آپ لوگوں سے کم سن ہوں لیکن آپ لوگ میری شمشیر اور جہاد کی وجہ سے ایمان لائے ہو‘‘۔ حضرت عباس کو یہ بات بری لگی تو انہوں نے آنحضرت۰ سے شکایت کردی، جس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ (منقول از تفسیرِ نمونہ)
٭ حضرت علی نے بار ہا اس آیت کے ذریعے اپنی اولویت اور افضلیت ثابت کی ہے، کیونکہ ایمان اورجہاد ان تمام خدمات سے بالاتر ہے جو دوران شرک انجام دی گئی ہوں، کیونکہ ان خدمات کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔
پیام:
١۔ اپنے اعمال پر نہیں اترانا چاہئے کیونکہ ایمان کے بغیر عمل کی حیثیت سراب کی سی ہے یا بے روح جسم کی سی۔
٢۔ مخلص مجاہد دوسروں سے برتر ہیں چاہے دوسروں کے کام بڑے اہم ہی کیوں نہ ہوں۔ (آَجَعَلْتُمْ سِقَايَة الْحَآجّ)
٣۔ باایمان مجاہدوں کو دوسروں کے ہم پلہ جاننا معاشرتی مظالم میں سے ایک ظلم ہے۔ (الْقَوْمَ الظَّالِمِيْنَ)
٤۔ تقويٰ کی طرح ایمان، ہجرت اور جہاد بھی تمام نیکیوں میں سرِ فہرست ہیں۔(اَعْظَمُ دَرَجَة)
٥۔ اگر لوگوں کے نزدیک قبائلی اور نسلی امتیاز قابلِ قدر ہے تو خدا کے نزدیک ایمان، ہجرت اور جہاد امتیاز ہیں۔ (عِنْدَ اللّٰه)
٦۔ ایمان دوسرے تمام کمالات کے لئے ضروری ہے۔(اٰمَنُوا)
٧۔ تمام مقدس کاموں کی قدرو قیمت نیت پر منحصر ہے۔( فِيْ سَبِيْلِ اللّٰه)
٨۔ اصل کامیابی اور کامرانی صرف اور صرف ایمان کے زیرِ سایہ ہی ممکن ہے۔(همُ الْفَائِزُونَ)
٩۔ اللہ تعاليٰ نے خود ہی مہاجر اور مجاہد مومنین کو بہشت کی نوید دی ہے۔(يُبَشِّرُهمْ رَبُّهمْ)
١٠۔ کسی دین کے جامع ہونے کی علامت یہ ہے کہ وہ فطرت کے ہم آہنگ ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے پیروکاروں کو امید بھی دلاتاہے۔(يُبَشِّرُهمْ رَبُّهمْ)
١١۔ اگرخدا کی خوشنودی کے لئے فانی نعمتوں سے دستبربردار ہو جائیں تو ابدی نعمتوں سے بہرہ مند ہوں گے۔(نَعِيْم مُقِیم)
١٢۔ دنیوی نعمتوں کے لئے زوال اور فنا بہت بڑی آفت ہے جب کہ آخرت میں اس قسم کی کوئی آفت نہیں ہوگی۔ (مُقِیم، خَالِدِینَ، اَبَداً)
١٣۔ جو خدا ساری دنیا کو ’’قلیل‘‘ کہتا ہے وہی مجاہدین کے اجر کو (عظیم) کہہ رہا ہے۔
١٤۔ خداوندِ عالم ہماری قلیل اور فانی چیزوں کو بہت بڑی قیمت کے بدلے خریدتا ہے حالانکہ ہمارے پاس جو کچھ بھی ہے، وہ بھی اسی کا دیا ہوا ہے۔