خالی دکان
میں انتہائی غریب و مفلس شخص تھا۔ شاید یہ بات ناقابلِ یقین ہو کہ میں کچھ عرصے قبل ایسی زندگی گذار رہا تھا کہ اس کو یاد کر کے آج بھی ساری رات سو نہیں پاتا۔ ایک ایک لمحہ یاد آتا ہے۔ میرے بچے بھوک سے روتے تھے تو کلیجہ چھلنی ہوجاتا۔ محلے میں اگر اچھا کھانا پکتا اور اس کی خوشبو ہمارے گھر آتی تو لگتا وہ ہماری غربت میں ہم پر تازیانے برسا رہا ہے۔ حتيٰ کہ ایک دن میری بڑی بیٹی پڑوسی کے باورچی خانہ کی کھڑکی کے نیچے کھڑی ہوکر اس گھر سے آنے والے مزیدار کھانے کی خوشبو اپنے سانس سے اندر لیتی گویا کھانے کا لقمہ بناکر اپنے منہ میں رکھ رہی ہو اور یوں منہ چلاتی گویا کھارہی ہو۔
میں ہمیشہ سے یوں نہ تھا۔ میں نے ایک چھوٹے سے کاروبار کی بنیاد رکھی تھی جو بری طرح سے ڈوبا تھا ۔
----
’’مضر!‘‘
’’ہوں!‘‘ میں چونکا! سامنے میرا بہترین دوست عدی کھڑا تھا۔
’’کیا بات ہے آج کل بہت ہی زیادہ غائب دماغ رہتے ہو؟‘‘ پھر وہ مسکرا کر آگے بڑھا اور بغلگیر ہوگیا۔
’’یار! کاروبار ڈوب گیا ہے۔ سرمایہ ہاتھ سے چلا گیا۔ کیا کروں؟‘‘ میرا سینہ تنگ ہونے لگا۔ خود میرے اس دوست کے حالات بھی اچھے نہ تھے۔ محنت مزدوری کرتا تھا۔ جب میرے حالات اچھے تھے تو میں اس کی مدد کرتا رہتا تھا ۔
’’مضر، دل چھوٹا نہ کرو آج شبِ جمعہ ہے، دعائ پڑھ لیتے ہیں۔‘‘ اس کی میری دوستی کی بنیاد اسی پر تھی۔۔ وہ ہمیشہ درد کا مرہم دعا میں ڈھونڈتا تھا اور میں مرہم نہیں کھوج پاتا تھا۔
’’مضر! یار مضر! بات سنو!‘‘ دعا پڑھتے پڑھتے یکایک اس کی آواز رک گئی اور وہ جوش سے کہنے لگا۔
عدی کی خوشی سے چہکتی آواز پر میں حیران ہوکر اسے یوں دیکھنے لگا کہ گویا میری لاٹری کھلے گی ابھی ابھی! اور وہ کھل بھی گئی۔
-----
’’خرچہ کہاں سے آئے گا؟‘‘ میں نے اداسی سے کہا۔ میرے پاس تو ایک کوڑی بھی نہ تھی۔ گھر بھی اب اندھیرے میں ڈوبا رہتا تھا۔ روشنی کا انتظام جو نہ تھا۔ آخر پیٹ بھرے تو روشنی کا انتظام کیا جائے۔
ہم عدی کی بیٹھک میں بیٹھے تھے اور ہمارے سامنے گلاس میں مشروب رکھا تھا۔ ’’اچھا!‘‘ عدی سوچ میں ڈوب گیا۔
’’ارے فکر کی کیا بات ہے عدی؟ وہ ہماری شادی کے زیورات ہیں نا!‘‘ عدی کی بیوی جو کافی دیر سے ہماری باتیں سن رہی تھی، چادر اوڑھ کر تیزی سے یبٹھک میں داخل ہوئی۔ عدی نے دونوں ہاتھوں سے سر کے بال پکڑ کر کھینچے۔ میں سمجھا شاید وہ بیوی کے بے دھڑک میرے سامنے آنے پر پریشان ہے؟ مگر وہ تو مکمل پردے میں تھی یا شاید زیور والی بات بتانے والی نہ تھی۔
’’اوہ!‘‘ عدی دھیمے لہجے میں بولا۔ ’’یہ خیال میرے ذہن میں کیوں نہیںآیا۔‘‘
عدی کی بیوی اندر گئی اور چند لمحوں بعد ایک خوبصورت سی پوٹلی لاکر میرے سامنے رکھ دی۔ ’’شاباش! مجھے نہیں معلوم تھا کہ میری بیوی میری طرح سوچتی ہے۔‘‘ عدی کی بات سن کر میں حیران رہ گیا۔ کیا میاں بیوی اتنے ہم خیال بھی ہوتے ہیں۔
’’مضر! ہم جیسے غریب آپ کی یہی مدد کرسکتے ہیں۔ مگر اس کے بدلے آپ کو ہمارا ایک کام بھی کرنا ہے۔‘‘ عدی کی بیوی کے الفاظ نے میرے دل کو اپنی گرفت میں لے لیا۔ یہ سب کم نہیں تھا!
’’تم نے اپنا پورا سرمایہ ایک دیوالیہ شخص کو دے دیا ہے۔ اب اس کے بدلے میں تو غلام ہوں تم لوگوں کا۔‘‘ میری آواز بھیگ چکی تھی۔
’’ارے مضر! ان کا یہ مقصد نہیں تھا۔۔ بلکہ! ہمیں صرف یہ کہنا تھا کہ جب ملاقات ہو تو تم ہمارا سلام پہنچا دینا۔۔‘‘ عدی اور اس کی بیوی رونے لگے۔
’’چچا جان! آپ ۔۔ ہمارا بھی سلام دیں گے نا!‘‘ عدی کے پانچ سالہ بیٹے کی بات سن کر میں زمین پر بیٹھتا چلا گیا۔
-----
میں ہمت نہیں کرپا رہا تھا کہ اس شہر میں داخل ہوں جہاں میرا محبوب ہے، میرا معشوق ہے۔
’’مسافر ہو؟ کہاں جانا ہے؟‘‘ ایک معمر شخص نے غور سے مجھے دیکھا۔
’’آں۔۔ ہاں ۔۔ میں یہاں ۔۔ نیا ہوں!‘‘ میں نے خود کو سنبھالا۔۔
’’اچھا! کہاں رکو گے؟‘‘ معمر شخص نے دوستانہ انداز میں پوچھا!
’’مم ۔۔۔ مجھے یہاں کسی جگہ کا علم نہیں۔‘‘ میں نے بے بسی سے اپنے اطراف چلتے پھرتے لوگوں کو دیکھتے ہوئے کہا۔
’’فکر نہ کرو میں محلہ بنی ہاشم کا رہائشی ہوں، اپنے کمرے کرائے پر دیتا ہوں۔‘‘ معمر شخص کی مہربان آواز اور آنکھوں میں ہمدردی نے میرا دل جیت لیا۔
’’محلہ بنی ہاشم؟!‘‘ میں چونکا۔ ’’ کیا میں اس عظیم جگہ پر ہوں؟۔۔ نہیں ۔۔۔ ناممکن!‘‘ میں نے دھیمے سے کہا۔ مجھے یقین نہیں آرہا تھا۔ ’’لیکن ۔۔ لیکن میں آپ کے پیسے نہیں دے سکتا۔‘‘ میں نے جھجکتے ہوئے دل کی بات کہہ دی۔
’’بیٹا میں تم سے ایک پیسہ بھی نہیں لوں گا اور اپنے گھر ٹھہراوں گا۔ کھانا بھی میرے ذمہ!‘‘ نجانے کیوں وہ مجھ پر اتنا مہربان تھا۔
مہربان بوڑھے نے میرا کندھا تھپتھپایا جب کہ میں حیران سا رہ گیا۔ دراصل ڈاکووں نے تمام قافلے والوں کو لوٹ لیا تھا اور میرا سب کچھ لٹ چکا تھا حتيٰ کہ میرے دوست عدی کے تحائف بھی۔
----
’’یہ گھر دیکھو!‘‘ معمر آدمی نے آنکھوں سے اشارہ کیا۔ ’’یہ حسین و خوبصورت دروازہ انہی کا ہے!‘‘ معمر آدمی نے محبت میں ڈوب کر ایک دروازے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے جو بہت ہی سادہ تھا۔ ’’صبح و شام میں ایک دفعہ ضرور یہاں سے گذرتا ہوں اور جب ان کو دیکھ لوں تو سمجھ لو کہ میرا دن یوں لگتا ہے کہ ۔۔خیر چھوڑو! میں جو بات سمجھا نہیں سکتا، لفظوں میں کیا بیان کروں۔ جب تم دیکھو گے تو جو تم پر گزرے گی ۔۔ تو خود ی سمجھ جاو گے۔‘‘ یہ کہہ کر وہ ہلکے سے ہنسا اور ایک گھر کے دروازے پر دستک دینے لگا۔
-----
میں نماز پڑھ کر واپس آیا تو دیکھا کہ معمر شخص اپنی شریک حیات کے ساتھ بیٹھا تھا۔ سامنے ایک دسترخوان بچھا تھا اور چند مزیدار کھانے رکھے تھے۔
’’آو بیٹا! ناشتہ!‘‘ معمر شخص کی چمکتی آنکھیں مسکرائیں۔
’’میں! یہ کھاوں!‘‘ میں نے حیرت و حسرت سے پوچھا۔ ’’ان کھانوں کے ایک ایک لقمہ کے لئے میرے بچے تڑپتے ہیں۔‘‘ میں اپنے درد کو دبانے لگا۔ دل کا یہ درد شاید معمر شخص نے میری آنکھوں میں پڑھ لیا۔
’’بیٹے! کتنی عجیب بات ہے! میں نے اب تک آپ کا نام نہیں پوچھا اور یہاں آنے کا مقصد بھی نہیں!‘‘
معمر شخص کی جہاندیدہ بیوی نے اس کو گھرکا۔ ’’اجی! بچے کو بھوک لگی ہے۔ بیٹا جاو ہاتھ دھولو، میں اور تمہارے چچا کب سے دسترخوان پر تمہارا انتظار کر رہے ہیں۔‘‘ میں جو کہ اپنے درد کے بھنور میں ڈوبا ہوا تھا چونکا اور ہاتھ دھوکر دسترخوان پر آگیا۔
’’ہاں بیٹا میں نے کچھ پوچھا تھا۔‘‘ معمر شخص نے ناشتہ کے بعد ہاتھ دھو کر اطمینان کے ساتھ بیٹھ کر پوچھا۔
’’میرا نام مضر ہے میں اُسی دروازہ کے پیچھے رہنے والے شخص سے ملنے آیا ہوں۔‘‘ میں نے بے دھڑک کہا اور اپنی زندگی کے نشیب و فراز عیاں کر دئیے۔
’’ مضر! جذبے زندہ ہوں تو منزل صاف نظر آتی ہے۔ عشق ہو تو منزل ہاتھ آہی جاتی ہے۔ ویسے یہ ایک ہزار ہیں۔ تم رکھ لو۔ نیا شہر ہے، تمہیں ضرورت ہوسکتی ہے۔‘‘ معمر شخص نے جذبات سے معمور لہجے میں کہا۔
’’جعفر آپ اس کو ابھی ابھی ان کے پاس لے جائیں اور میر اسلام نہ بھولئے گا اور ہاں یہ بھی لے جائیں۔‘‘ خاتون نے ایک برتن ڈھکا ہوا سامنے رکھ دیا۔
میں حیران سا رہ گیا۔ میں پریشان تھا کہ اس عالمِ غربت میں ایک انجان انسان کو صر ف اس لئے اہمیت دی جاری ہے کہ ہمارا محبوب و معشوق ایک ہے۔
اے خدا میں تیری محبت کے قابل نہ تھا۔ اور اب تو مجھے اپنے اور میرے محبوب سے ملادے۔
-----
میں نے کیسے اس دروازے کو عبور کیا، یہ میرا رب ہی جانتا ہے۔ عشق و محبت کی خوشبو ہر گوشے سے نکل کر آرہی تھی۔ ہر طرف انجانی روشنی تھی۔
’’مضر!‘‘
’’ہوں!‘‘ میں چونکا۔
معمر شخص میری کیفیت پر مسکرایا۔ گویا کہہ رہا ہے ۔۔ خود کو سنبھالو، یہاں چار سو عشق کی کہکشائیں ہیں، کہیں ڈوب نہ جانا۔ بیٹھک میں آکر میں حیران تھا۔ مختلف رنگ میری سانسوں کے ذریعے اندر جارہے تھے۔ خوشیوں کا طوفان تھا اور میں اس طوفان میں غرق۔
’’بیٹھو!‘‘ معمر شخص گہری مسکراہٹ سے مجھے دیکھ رہا تھا۔ میں ایسے بیٹھاگویا ابھی ابھی وہ اندر آئیں گے اور میں ۔۔۔
’’مضر! حوصلہ کرو۔‘‘ معمر شخص نے میرا شانہ مہربانی سے تھپتھپایا۔
’’میں نے بہت سی غلطیاں کی ہیں۔ مم ۔۔ میں ۔۔ کیسے ان کا سامنا کروں گا۔ میرا دل اپنی کوتاہیوں اور غلطیوں سے غمگین ہوگیا۔ ’’کیا وہ میرے سلام کا جواب دیں گے؟‘‘ میںنے مہربان اور شفیق بزرگ سے پوچھا!
’’ارے! وہ تو سراپا محبت ہیں۔۔ محبت! میرا بس چلے نا تو میں ان کے قدموں کی خاک بن جاوں۔‘‘
قدموں کی آواز پر میری سانس رکنے لگی۔ ’’قدموں کی آواز بتارہی ہے کہ وہ آرہے ہیں۔‘‘ میں نے معمر شخص سے کہا اور جونہی قدموں کی آواز رُکی میں فوراً کھڑا ہوگیا۔ چند لمحے بعد وہ سامنے تھے۔۔ میرے سامنے ۔۔ ’’اوہ! یہ۔۔ یہ ۔۔ میرے اتنا قریب! میں ان کو چھو سکتا ہوں! میں ان کو دیکھ رہا ہوں اپنی ان آنکھوں سے۔۔ اوہ! اوہ! اے خدا!!! میں تو بہت ذلیل شخص تھا۔ تو نے مجھ میں کیا دیکھا کہ ۔۔ اتنا مکرم کر دیا؟ میں تو بے غیرت تھا تو نے کیا دیکھا کہ اتنا عالی مرتبہ بنا دیا کہ ۔۔ میرے ۔۔ مولا۔۔ امام ۔۔۔ جعفر صادقٴ کی زیارت کروا دی۔ میںخود پر قابو نہ رکھ سکا، ان کے قدموں میں گر گیا۔ ان کے قدموں کی خاک ۔۔ بہشت کی خاک! ان کے لباس کی بو ۔۔ جنت کی ہواوں کی خوشبو! ان کے مہکتے ہاتھ میرے لبوں کی منزل!
---
میں تو گونگا ہوچکا تھا۔ زبان تو شاید میں کہیں بھول آیا تھا۔ میں ایسے ان کو دیکھ رہا تھا کہ آنکھوں کے راستے ان کو دل میں اتار لوں۔ واپس جاکر عدی اور اس کے گھروالوں اور اپنے بچوں کو دکھاوں کہ یہ دیکھو۔۔ میں مضر ہوں۔ یہ میری آنکھیں دیکھو، ان سے میں نے مولاٴ کو دیکھا ہے۔ یہ ہونٹ! تم دیکھ رہے ہو ان سے ان نرم و ملائم گداز ہاتھ کا بوسا دیا ہے۔ اوریہ دونوں ہاتھ ! تم نہ سمجھنا کہ یہ عام ہاتھ ہیں ان سے میں نے ان کا لباس چھوا ہے ۔ اور یہ پاوں۔۔!
ارے لوگو! ان سے چل کر میں ان کے گھر گیا۔ ان کے گھر کی خاک پر قدم رکھے۔
آہ! مہربان آقا!
معمر بوڑھے جعفر نے میرا تعارف کروایا۔ اتنی دیر میں ایک ملازمہ پانی رکھ کر گئی۔ انھوں نے پانی پیالے میں نکال کر مجھے دیا تو میں نے جھپٹ کر ان کا ہاتھ پکڑ لیا۔ انھوں نے اپنی خوبصورت مسکراہٹ سے میرا حوصلہ بڑھایا تو میں نے پیالہ پکڑا اور یوں پینے لگا گویا آبِ حیات میرے جسم میں منتقل ہورہا ہو۔ مجھے حوصلہ ملا۔ میں نے تمام لوگوں کے سلام پہنچائے اور ڈاکووں کا تذکرہ بھی کیا جنھوں نے عدی کے اور میری بیوی کے تحائف لوٹ لئے تھے جو میں ان کے حضور لانے والا تھا۔میں ایک دم عدی اور گھر یاد آنے پر ملول ہوگیا ۔ میرا جسم ٹوٹنے لگا۔
’’مضر پریشان نہ ہو۔۔! جب کوفہ جاو تو ایک دکان کرائے پر لے کر وہاں بیٹھ جاو۔‘‘ میں محسوس کررہا تھا میری غربت و فقر کے سیاہ بادل چھٹ رہے ہیں۔
’’مگر مولا! بیچنے کا سامان کہاں سے لاوں گا؟ دکان کا تو مسئلہ نہیں ہے۔!‘‘ میں نے اپنے امام کی ہمدردی اور بے پناہ شفقت پر ایک سوال اور کر دیا۔
’’مضر! یہ سوچنا تمہاری ذمہ داری نہیں ہے۔ تم اللہ کی رحمت کا سہارا لے کر دکان میں بیٹھ جاو۔ جس خدا نے تمہیں پیدا کیا ہے وہ تمہیں فراموش نہیں کرے گا۔‘‘ میرا دل چاہا میں اپنا سر پیٹ لوں۔ ارے یہ کوئی معمولی انسان نہیں، مولا و آقا ہیں اور میں اتنی جرآت کے ساتھ پوچھے جا رہا تھا۔
’’یہ میری زوجہ نے آج آپ کے لئے بنایا تھا۔ اگر قبول کرلیں تو میرا گھر عید منائے گا۔‘‘ بوڑھا شخص بے چارگی سے گویا ہوا۔ ان کی لطیف مسکراہٹ پر ان کی آنکھیں چمک اٹھیں۔
’’آپ کا احسان، آپ نے قبول کیا۔ میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں۔ خدا مجھے آپ کے ساتھ موت دے اور میری نمازِ جنازہ آپ پڑھائیں۔‘‘ معمر شخص بے چین ہوگیا۔ میں تڑپ کر رہ گیا۔
مدینہ اور کوفہ ! کوفہ اور مدینہ؟ ’’ادا س نہ ہو! مولا کے لئے یہ فاصلے کہاں اہمیت رکھتے ہیں ۔‘‘ میرے کانوں میں ہواوں نے سرگوشی کی۔ جب میں واپس پلٹا تو یوں لگا ۔۔
جیسے سورج اپنی گرمی کو ٹھنڈک میں تبدیل کررہا ہو کہ مجھے گرمی نہ لگے۔۔۔ ہوائیں میر ابوسہ لے رہی ہیں، سورج کی کرنیں میری آنکھیں چوم رہی ہیں، ریت اڑ اڑ کر میرے لباس میں موجود آقا کی مہک چھین رہی ہے۔
’’مضر!‘‘ میں چونکا۔ ’’مبارک ہو!‘‘ یہ ہوائیں، پہاڑ، پھول کلیاں سب میرے کانوں میں سرگوشیاں کررہے تھے۔
---
کوفہ آکر اپنے عزت مآب مولاٴ کے فرمان کے مطابق میں ایک خالی دکان کرایہ پر لے کر بیٹھ گیا۔ چند روز بعد ایک شخص آیا۔
’’بھائی میرے پاس عمدہ سامان ہے، کیا آپ فروخت کر دیں گے؟‘‘
’’بالکل کردوں گا! مگر میرے پاس رقم نہیں کہ میں آپ کا سامان خرید سکوں!‘‘ مضر نے صاف گوئی سے کام لیا۔
’’ارے بھئی کوئی بات نہیں! تم سامان بیچو، اصل رقم مجھے دے دینا اور منافع تمہارا ہوگا۔‘‘ اس شخص نے ہنستے ہوئے کہا اور سامان بھجوادیا۔
میں نے بسم اللہ کرکے عدی کو ساتھ ملالیا۔ عدی محنت مزدوری کے بعد فالتو وقت مجھے دینے لگا۔ یوں سامان نہایت اچھے منافع کے ساتھ بک گیا۔ پھر ایک اور شخص نے سامان رکھوایا تو وہ بھی اچھے منافع پر بک گیا اور اس طرح میرے پاس اچھی خاصی رقم جمع ہوگئی۔ اب میں نے ذاتی کاروبار شروع کیا جو بہت منافع بخش تھا اور اس طرح میرے حالات بہتر ہوتے چلے گئے جبکہ عدی نے ایک دکان خریدکر کاروبار شروع کیا اور آج ہم دونوں جو کہ ایک ایک لقمہ کے محتاج تھے، اس قابل ہیں کہ کئی گھرانوں کی مدد کر رہے ہیں۔ میں نہیں سمجھتا کہ اس میں میرا کوئی کارنامہ ہے۔ جب کہ عدی اور میری بیوی کا کہنا سولہ آنے درست ہے کہ! ’’تمہارے سر پر مولا نے ہاتھ رکھا تھا جس سے تمہارا ذہن چلنے لگا ہے‘‘ ۔
شاید یہی وجہ ہے کہ میں آج پلٹ کر دیکھتا ہوں تو یوں لگتا ہے کہ امامٴ سے ملاقات سے پہلے والا مضر کوئی اور تھا اور آج کا مضر کوئی اور ہے۔ میرا تجربہ یہ کہتا ہے کہ !میں امامٴ سے ملا تھا لیکن عدی تو نہ ملا تھا۔۔ مگر ہم دونوں کو سہارا اسی بند دروازے کے پیچھے سے ملا ۔۔۔ گویا!
امامٴ ظاہر ہو یا حاضر! وہ دردِ دل کا مسیحا ہے مگر ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم خود کو اس تک پہنچا دیں۔ چاہے عدی کی طرح دلی لگاو ہو یا میری طرح جسمانی ملاقات۔
’’مگر دونوں حالتوں میں فرق کہاں؟‘‘ میری بیوی نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا تو میں چونکا۔
دراصل میں اپنے کمرے میں لگے آئینے کے سامنے کھڑا اپنے آپ سے گفتگو میں اتنا مصروف تھا کہ اس کے آنے کا احساس تک نہ ہوا۔
’’مضر! یقین کرو تم امامٴ سے ملے ہو تو میں اب تم سے اتنی محبت کرتی ہوں بتانہیں سکتی۔۔‘‘