امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک

جناب ِسیدہ فاطمہ الزہراء .دوسری قسط

0 ووٹ دیں 00.0 / 5

ہم گزشتہ قسط میں یہ عرض کر چکے ہیں کہ کسی کوحضرت سیدہ کا ساگھرانا نہ آج تک ملا ہے نہ ملے گا۔ اب آگے بڑھتے ہیں ۔

ولادت ِ با سعادت۔ تاریخ اسلام میں تمام چیزوں کی طرح اس پر بھی ا ختلاف ہے کہ سن ِ پیدا ئش کیا تھی؟ شکر ہے کہ اس پر اتفاق ہے کہ تا ریخِ پیدا ئش کیا تھی۔
ایک روایت یہ ہے کہ انکی پیدا ئش بعثت سے ایک سال پہلے ہو ئی دوسری یہ ہے کہ اعلان ِ بعثت کے پہلے سال جماد الثانی میں ہو ئی ۔ جبکہ حضرت عبد الحق (رح)محدث دہلوی نے بعثت سے پانچ سال پہلے لکھی ہے۔ جبکہ حضور (ص)کی عمر ِ مبارک ٣٥ سال تھی اور یہ وہ سال تھا جبکہ قریش کعبہ میں دراڑ پر جانے کی وجہ سے اس کی مر مت میں مصروف تھے۔ حضرت ابن ِ سعد (رح) نے بھی اسی پر اتفاق کیا ہے کہ ان کا کہنا یہ ہے کہ حضور (ص) کے ظاہری وصال کے وقت ان کی عمر اٹھا ئیس یا انتیس سال تھی اس حساب یہ روایت صحیح ہے۔ان کے علاوہ صاحب ِ روضة شہدا نے لکھا ہے کہ جماد الثانی کی بیس تاریخ کو بعثت کے ایک سال کے بعد ان کی ولادت ہوئی انہوں نے ولادت کی مزید تفصیلات بھی فرا ہم کی ہیں ۔
انہوں نے تحریر کیا ہے کہ “ان خاتون کا جن کے ایک شا رہ پر تمام مکہ کی خواتین جمع ہو جا یا کرتی تھیں ، آج کسمپرسی کا یہ عالم تھا کہ وہ تنہا تھیں ۔ اور مکہ کی تمام خواتین نے با ئیکاٹ کر رکھا تھا کہ کوئی ان کی اس وقت ِ خا ص میں اعانت نہ کر ے۔کیونکہ انہوں (رض) نے محمد (ص) کے ساتھ شادی کرلی تھی اور اپنا تمام اثا ثہ بھی اسلام پر نچھا ور کر دیا تھا۔ لہذا ان کے نزدیک یہ اتنا بڑا جرم تھا جو کہ نا قابل ِ معافی تھا۔ جب وہ ہر طرف ما یوس ہو جاتی ہیں تو کیا دیکھتی ہیں کہ چار اجنبی دراز قدخواتین ان کے گھرمیں موجود ہیں، انہیں خوف محسو س ہوا۔ تو ان سے پو چھا تم کون ہو اور کیوں آئی ہو ؟ انہوں نے ہاشمی خواتین کے لہجہ میں جواب دیا کہ ہمیں اللہ سبحانہ تعالیٰ نے آپ کی مشکل آسان کر نے کے لیئے بھیجا ہے۔میں سائرہ زوجہ ابرا ہیم علیہ السلام ہوں اور یہ میرے ساتھ مریم بنت ِ عمران ہیں اور یہ جناب ِ کلثوم خواہر ِ مو سیٰ اور یہ ان کے ساتھ آسیہ زوجہ (رض)فرعون ہیں ۔ انہوں نے حضرت خدیجہ (رض)کی مدد فر مائی اور حضرت سیدہ صلواہ اللہ علیہا اس دنیا میں تشریف لا ئیں “مگر یہاں کچھ مورخین اس پر معترض ہیں کہ چلیں عام قریش خوا تین نے با ئیکاٹ کیا ہوا تھا وہ نہیں آئیں۔ مگر وہ خواتین جو کہ ایمان لے آئی تھیں وہ اس وقت کہا ں تھیں ؟ ہم نے یہاں پورا واقعہ جو تا ریخ میں ملتا ہے قلم بند کر دیا۔ کیونکہ ہم نہیں چاہتے کہ کو ئی روایت قلم بند ہو نے رہ جا ئے۔ مگر ہمارا خیال ہے کہ وہ بھی موجود رہی ہونگی ،مگر جو نہیں آئیں وہ شاید دایہ گیری میں زیادہ ماہر ہو نگی جس کی وجہ سے ان کے نہ آنے کو حضرت خد یجہ (رض) نے اس زیادہ محسوس فر مایا۔
ان کی پیدا ئش شروع سے ہی معجزہ نما تھی۔ آگے حضرت خدیجہ الکبریٰ (رض)کے زبانی ہی ایک دوسری روایت ملتی ہے جس میں وہ فر ماتی ہیں کہ شروع دن سے مجھے جب احسا سِ حمل ہو ا تو مجھے جنتی خو شبو محسوس ہو تی تھی اور ایک روا یت حضور (ص) سے بھی منسوب ہے کہ وہ ہمیشہ حضرت سیدہ کے بالوں کو سونگھا کرتے تھے اور فر ما تے تھے کہ ان میں سے مجھے جنت کی خوشبو آتی ہے۔ جب پیدا ئش کا مر حلہ ختم ہوا تو ان کو حضرت خدیجہ (رض) کی گود میں ان خواتین نے دیدیا۔اور بقول مورخین کے ایسا محسوس ہو تا تھا جیسے چاند نکل آیا ہو ۔ اتنے میں حضور (ص) بھی تشریف لے آئے اور ان کو گود میں اٹھا لیا اور پیشانی کو بو سہ دیا اور نام فاطمہ رکھا۔ یہ تاریخ ٢٠ربیع الثانی تھی، مگر سن یہاں کچھ مورخین نے بجا ئے عربی کے عیسوی استعمال کیا ہے جو کہ ٦١٥عیسوی ہے۔ جبکہ ربیع الثانی اس سن کا مہینہ ہے جو کہ اس وقت عرب میں رائج تھا ۔
سن میں اتنا اختلاف کیوں ہے اس کی وجو ہات یہ ہیں ۔ حضور (ص) کی پیدا ئش سے چارسو سال پہلے سے ایک کیلینڈر عرب میں را ئج تھا جو قمری سن کہلا تا، مگر اس کو شمسی سال کے برابر رکھنے کے لیئے ہر تین سال کے بعد ایک سال وہ لوند کا ربڑھاکر تیرہ مہینہ کا کر لیتے اور اس طرح سال برابر دونوں قسم کے سال پھر برابر آجاتے تھے۔ جبکہ مہینے اپنی جگہ سے نہیں ہٹتے تھے ۔ اور مہینوں کے نام ان کے موسمی خو اص کے حساب سے رکھے ہو ئے تھےجیسے کہ رمضان انتہائی گرم مہینہ تھا جس میں لوگ دن کو سوتے تھے اور کاروبار زندگی رات کو انجام دیتے تھے۔ مہینے تو وہی اسلام آنے کے بعد بہت معمولی تر میم کے ساتھ را ئج رہے، مگر سن کا معاملہ یہ ہوا کہ حضور (ص) کے آخری دور میں سورہ تو بہ میں وہ آیت نازل ہوگئی ۔جس میں حکم ہوا کہ سال، ہمیشہ لیے بارہ مہینے کا کیا جا ئے لیکن۔ اس کے بعد حضور (ص)وصال فر ما گئے اور مسلمان بغیر کلینڈرکے مختلف روایات کے مطابق گیارہ یا سولہ سال تک رہے اس کے بعد حضرت عمر (رض)کے دور ِ خلافت میں سن ہجری رائج ہو ا جبکہ اس دوران مہینے گر دش کر تے رہے۔ یہ بھی ایک وجہ در اصل روایات میں اختلاف کی ہے۔ویسے بھی نصب کے ماہرین وہا ں پر تاریخ ِ پیدائش اور وفات وغیرہ زبانی یا د رکھتے تھے اور ان کی یاداشت میں جو اختلاف عام تھا،وہ بشریت کا تقاضہ تھا۔
اس کا مزید ثبوت ایک اور بھی ملتا ہے کہ ایک مورخ نے ہجرت کے وقت ان کی عمر اٹھارہ سال اور آٹھ ماہ لکھی۔ لہذا ہمارے خیال میں ان کی پیدا ئش بعثت سے پانچ سال پہلے ہی درست ہے۔واللہ عالم۔
کنیت ام ِ محمد۔ہم نے پہلی مرتبہ جب یہ کنیت تا ریخ میں پڑھی تو بہت حیرت ہو ئی اس لیئے کہ جہاں تک ہمارے علم تھا ان کی کو ئی اولاد اس نام کی نہ تھی؟ تجسس پیدا ہوا اور تا ریخ کو کھنگا لاتو پتہ چلا کہ یہ کنیت بھی ان کو حضور (ص) نے عطا فر مائی ہےاور اس کی نسبت حضور (ص) کی طرف اس لیئے ہے کہ انہوں نے اپنے بچپن سے لیکر حضور (ص)کے وصال تک ایک ماں کی طرح اپنے والد کی ہر طرح نگہداشت اور اعانت فر مائی۔ میرے خیال میں تا ریخ میں کسی باپ کی طرف یہ واحد خراج ِ تحسین ہے جو کنیت کی شکل میں حضور (ص)نے اپنی صاحبزادی کو عطا فر مایا۔ اس سے اندازہ ہو تا ہے کہ وہ کس قدر حضور (ص) کا خیال فر ماتی تھیں اور اسی لیئے حضور (ص) ان کا بے انتہا احترام فر ماتے تھے۔ اس کی تفصیلات طویل ہیں ہم جیسے جیسے آگے بڑھیں گے انشا اللہ پیش کر تے رہیں گے۔ (باقی آئندہ)

 

 

آپ کا تبصرہ شامل کریں

قارئین کے تبصرے

کوئی تبصرہ موجودنہیں ہے
*
*

امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک