امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک

جناب ِسیدہ فاطمہ الزہراء .تیسری قسط

0 ووٹ دیں 00.0 / 5


ہم گزشتہ ہفتے حضرت فاطمہ الزہراء سلام اللہ علیہا کا ذکر کرتے ہو ئے ان کی کنیت ام َ محمد (ص)پر بات کر رہے تھے۔ اب آگے بڑھتے ہیں ابن ِ کثیر (رح) نے کئی حوالوں کے ساتھ تحریر کیا ہے کہ ان کو یہ بھی فخر حاصل ہے کہ انہوں نےصرف اپنی والدہ محترمہ حضرت خدیجہ الکبریٰ (رض)کا دودھ پیا اوران کو دوسرے بچوں کی طرح دایہ کے سپرد نہیں کیا گیا اور وہ کسی کی دودھ شریک بہن نہیں بنیں۔ اس کی وجہ کچھ مورخین نے یہ لکھی ہے کہ اب حضرت خدیجہ الکبریٰ ایک مالدار خاتون نہیں رہیں، تھیں کیو نکہ وہ اپنی تمام دو لت ر اہِ اسلام میں خرچ کر چکی تھیں ۔ بہر حال وجہ کچھ بھی رہی ہو مگر یہ فخر انہیں حاصل ہے کہ اس میں بھی ان کا ہم سر نہ تھا۔ دوسرے وہ پہلی بچی تھیں جو دوران ِ نماز حضو ر (ص)کے شانہ مبارک یا پشت ِ مبارک پر سوار ہو جاتیں اور حضور (ص) ان کو ایک ہاتھ سے یا تو اتار دیتے یا اگر سجدے میں ہو تے تو اس وقت تک توقف فر ماتے جب تک کہ وہ واپس فر ش پر نہیں آجا تیں، ان کے بعد یہ ہی فخر جنا ب حسنین (رض) کو حا صل ہوا، لہذا ان کی اس فضیلت میں بھی ان کے اور ان کے بچوں کے سوا کوئی اور شریک نہیں ہے۔
تر بیت۔ چونکہ وہ شروع سے ہی اپنی والدہ کے زیر ِ تر بیت رہیں۔ لہذا انہیں تر بیت کے لیئے گھر انہ ایسا ملا جس میں ہر وقت قر آن کاچر چا تھا جس گھر میں کسی لمحہ بھی حضرت جبرئیل (ع) کی آمد ورفت متوقع رہتی تھی۔ سایہ پدری ایسا ملا جو کہ رحمت اللعالین (ص) تھے جن کو اس عالم میں ہی نہیں بلکہ اس عالم میں بھی فضیلت حا صل ہے۔ گوداس ماں کی ملی جو (رض) کہ دنیا کی چند منتخب خواتین میں ایک تھیں ۔ہر وقت ان کی کو شش ہو تی کہ اس ننھے سے ذہن میں وہ تمام علم وحکمت ڈا لدیں جو انہیں حضور (ص) کی طویل ترین رفاقت میں رہتے ہو ئے حا صل ہوئی ۔ وہ ان کو ان قر آنی آیتو ں کی تفسیر جو حضور (ص) سے معلوم ہو تی، بجا ئے لوری، قصے کہانیوں کے سنا یا کر تیں اور اگر کبھی بھولے سے کوئی قصہ سناتیں بھی تو وہ بھی قر آنی ہو تا۔ لہذا جن کے والدِ محترم بے مثال ہو ں، اور والدہ محترمہ بھی بے مثال ہو ں ،توجو بچی اس ما حول میں پر ورش پا ئے گی اس کو بھی بے مثال ہو نا چاہیئے تھا جو وہ تھیں۔ لہذا اس میں کو ئی حیرت کی بات نہیں کہ وہ بے مثال کیوں بن گئیں۔ چونکہ اللہ تعالیٰ کی یہ سنت ہے کہ بعض زمینوں کو بعض مقامات کو اور بعض پہاڑوں کو چن لیتا ہے۔ جیسے کہ وادی ِطور۔ مکہ معظمہ اور جبل رحمت وغیرہ، اسی طرح بعض نسلو ں کو بھی چن لیتا ہے اور ان میں وہ خصو صیات ودیعت فر ما دیتا ہے جو عام لو گوں میں نہیں ہو تیں ۔جیسے کہ پہلے تمام انبیا ئے کرام (ع)حضرت ابرا ہیم علیہ السلام کی اولاد میں سے ہوئے۔ چونکہ مشیت الٰہی کار فرما تھا یہاں بھی وہی معاملہ تھا کہ نبوت کو ختم ہو نا تھا اور اللہ کو اس کا بدل پیدا کر نا تھا ، جسے آگے چل کر تبلیغ کا فریضہ انجام دینا تھا۔اس کے اہل ِ بیت منتخب ہوئے یعنی ولا یت بوجھ اللہ کوان کے کاندھوں پر ڈالنا تھا، لہذا اہل ِ بیت کو منجانب اللہ سبحانہ تعا لیٰ وہ فضیلت ملی کہ حضرت فا طمہ الزہراء بے مثال بن گئیں۔ پھر ان کو شوہر بھی حضرت علی کرم اللہ وجہ جیسا صاحب ِ ولایت اور بے مثال ملا۔ آگے چل کران دونوں کی تربیت نے دنیا کو حضرت حسن جیسے مدبر اور حضرت حسین جیسے بہادر اور سر فروش ، حضرت زینب جیسی مقر ر اور شیر نی صفت بیٹی عطا فر مائی( سلام اللہ تعالیٰ علیھم اجمعین ) عطا فر مائے، جو نہ یزید کی فوج سے متاثر ہو ئے اور نہ اس کے دربار سے۔
یہ در اصل حضرت خدیجہ الکبریٰ کی تر بیت کا لازمی نتیجہ تھا کہ جو جوہر پہلے ان میں تھا ، پھر انہوں نے اپنی اولاد کو منتقل فر مادیا۔
ان کی فطرت کا اندازہ حضرت خدیجہ الکبریٰ کو ان کے بچپنے میں ہی ہو گیا تھا۔ ابھی وہ چھ سال کی بچی تھیں اور قبیلے میں کو ئی شادی تھی حضرت خدیجہ الکبریٰ نے سو چا کہ بچہ ہیں کہیں دوسروں کو زر ق برق لباس میں دیکھ کر احساس ِ کمتری کا شکار نہ ہو جا ئیں یا ضد نہ کر یں۔ انہوں نے ایک دور اندیش ماں کی طرح رواج کے مطابق چند چاندی کے گہنے اور اچھے کپڑے تیار کروا رکھے، مگر جب وہ دن آیا اور ان کو پہنا نا چا ہا تو انہوں نے یہ فر ماکر انکا ر کر دیا کہ مجھے سادے کپڑے جو آپ اور وا لدِ محترم پہنتے ہیں وہی اچھے لگتے ہیں ۔ اس کے آگے مورخین نے تو کچھ نہیں لکھا، مگر مجھے یقین ہے کہ وہ بھی خیرات کر دیئے ہونگے اور کسی ضروتمند کے کام آئے ہونگےاس لیئے کہ ان کا وطیرہ ہی بھوکوں کو کھانا کھلانا ، اور حاجت مندوں کی حاجت پوری کر نا تھا۔
اس کے بعد ایک اور واقعہ نے اس پر مزید مہر ِ تصدیق ثبت کر دی کہ فراست میں بھی، ماں سے بیٹی کم نہیں ہے کہ جس کو تمام رو ساءکے پیام آئے مگرماں نے رد کر کے ایک درِ یتیم کو چنا ، جس کے پاس رہنے کے لیئے گھر، اور پاس میں پھوٹی کو ڑی بھی نہ تھی۔
آگے چل کر بعد میں بیٹی نے بھی جن کے بڑے بڑے لوگ اب پیغمبر (ص) کی بیٹی ہو نے کی وجہ سے خواہشمند تھے انہوں نے بھی والدِ محترم کی خواہسش پر جن کی ہر خواہش در اصل اللہ سبحانہ تعالیٰ کی خواہش ہوتی تھی ، انکے استفسار کر نے پرحضرت علی کرم اللہ وجہ کے حق میں رائے دیکران کو چنا جو کہ تمام خصائل میں ویسے ہی تھے۔
بچپن میں ہی ان کی فراست کا ثبوت ایک دوسرے واقعہ سے بھی انہیں جلد ہی مل گیا کہ ایک دن وہ حسب دستور اللہ اور رسول (ص)کے قصے سنا رہی تھیں کہ اسی چھ سالہ بچی نے سوال کیا اماں ! آخراللہ سبحانہ تعالیٰ ہمیں نظر کیوں نہیں آتا ؟(جبکہ ہما را گھرانا اس کے اتنا قریب ہے) ماں کو یہ سوال سن کر پہلے تو خو شگوار حیرت ہو ئی کہ ایک معصوم بچی کہ ادراک کا یہ عالم ؟ پھر انہوں جواب دیا کہ بیٹا وہ قیامت کے دن اپنے ان بندوں کو اپنے دیدار سے نوازے گا جو یہاں پر اس کے راستے پر چلیں گے اور بچی یہ جواب سن کر مطمعن ہو گئی اور اس طرح انہوں نے بچپن سے ہی وہ لگن جناب ِ فا طمہ (رض)میں جگا دی جو کہ بعد میں ان کی زندگی کاحصہ بن گئی۔
بچپن کے بعد جب انہوں نے ذرا ہوش سنبھالا تو دیکھا کہ ان کے خاندان کا تمام مکہ دشمن ہے ان کے والد ِ محترم کو لوگ طرح طرح سے تنگ کر رہے ہیں ۔ وہ سڑک پر چلتے تو لوگ آوازے کستے، محلے کے بچوں کو ان کے پیچھے لگا دیتے ۔ حضرت علی کرم اللہ وجہ، جو ان کے ساتھ ہی رہتے تھے ۔ان کا بڑوں پر تو زور نہ چلتا مگر بچوں کی وہ پٹائی کر د یا کر تے ۔ یہ اپنے ننھے منے، ہاتھوں سے کبھی حضور (ص)کے اوپر پھینکی گئی غلا ظت صاف کرتیں، تو کبھی زخم دھو تیں اور کبھی کفار کے منصوبوں کو ان سے سن کر اپنے والد کے گوش گزار فر ما تیں ۔ ایک دن قریش کے کچھ سردار منصوبہ بندی کر رہے تھے کہ حضور (ص) کونقصان پہو نچا یا جا ئے ! انہوں نے ان کی با تیں سن لیں اور جا کر حضور (ص) کو بتا دیا۔ اس کا تدارک کر لینے کی بنا پر حضور (ص)ان کی شرارتوں سے محفوظ رہے ۔
دوسرا اہم واقعہ جو تا رخ میں مشہو ر ہے وہ یہ ہے کہ ابو جہل ملعون نے ابی معیط سے کہاکہ تم کہیں سے اونٹ کی اوجھڑی لاکر محمد (ص) کے اوپر ڈالدو جو اس وقت سجدے کی حالت میں تھے ۔ یاد رہے حضور (ص) کے سجدے بڑے طویل ہوا کر تے تھے اور اس وقت انہیں کو ئی احساس بھی نہیں ہو تا۔ لہذا وہ گیا اور غلاظت لا کر ان پر ڈالدی ،مگر ان کو خبر بھی نہ ہوئی ۔ جب حضرت فا طمہ نے دیکھا تو انہوں نے اپنے ننھے ہا تھوں سے ہٹایا اور ان کو برا بھلا کہا ۔پھر والد کے جسم اطہر کو دھو یا۔
کچھ اور بڑی ہو ئیں تو اکثر وہ حضرت زید کے ساتھ اپنے والد محترم کے لیئے کھانا لے جا یا کرتیں ،جو کئی کئی دن غار ِ حرا میں مقیم رہتے اور واپس آکر والدہ کووالدِ محترم کی خیریت پہونچا تیں اور اس طرح ان کی طمانیت کا باعث بنتیں۔اس لیئے کہ ایک بیٹی سے زیادہ کون باپ کی حالت جان سکتا ہے۔ (باقی آئندہ
 

 

آپ کا تبصرہ شامل کریں

قارئین کے تبصرے

کوئی تبصرہ موجودنہیں ہے
*
*

امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک