امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک

جناب ِسیدہ فاطمہ الزہراء .چوتھی قسط

0 ووٹ دیں 00.0 / 5

ہم جناب ِ سیدہ سلام اللہ علیہا کے بچپن کے حالات پربات کررہے تھے اور یہاں تک پہونچے تھے کہ ان کا چونکہ کو ئی بھائی نہ تھا لہذا جہاں وہ ایک بیٹی کی طرح نگہداشت اور ضروریات کا خیال رکھتیں وہیں وہ ایک بیٹے طرح غار میں کھانا بھی پہونچا تیں اور والد ِ محترم کی خبر ماں کو اور ما ں خیریت والدِ محترم (ص) کو پہونچا تیں ۔ اب آ گے بڑھتے ہیں ۔ غر ضیکہ ان کا بچپن اس طرح گزرا جو کہ عام بچوں سے قطعی مختلف تھا اور ان کے ساتھ یہ ہمیشہ ہی ہو تا رہا ہےکہ جو وقت بھی آیا ان کے لیئے ایک نئی افتاد منتظر تھی، جیسا کہ آپ آگے چل کر پڑھیں گے۔ جس طرح والد ِ محترم سب نبیوں (ع) میں سب سے زیا دہ آزما ئے گئے اسی طرح خاتون ِ جنت بھی تمام پا کیزہ خوا تین میں سب سے زیادہ آزما ئی گئیں ۔کسی شاعر نے سچ کہا ہے “ جن کے رتبے ہیں سوا ان کی سوا مشکل ہے۔

حضور نے(ص) جب یہ دیکھا کہ قریش کا ظلم حد سے بڑھ گیا ہے تو انہوں نے صحابہ اور صحابیات (رض) کو حبشہ ہجرت کرنے کی اجازت مر حمت فر مادی اور جتنے آزاد صحابہ (رض) جاسکتے تھے وہ حبشہ چلے گئے، ان میں حضرت عثمان (رض) اور ان کے اہلِ خانہ بھی شامل تھے ۔ حضرت ابو بکر (رض)بھی روانہ ہو ئے مگر ان کو را ستہ سے ایک قریش سردار واپس لے آئے ۔
تب وہاں مہا جرین کی آ باد کاری روکنے کے لیئے قریش نے حبشہ اپنا ایک وفد بھیجا اور وہاں بھی اس کو حضور (ص) کے خلاف بہکانے کی کوشش کی، جو حضرت جعفر (رض) بن ابی طالب کی بے مثال وکلا لت کے سامنے بری طرح ناکام ہوگئی، بلکہ الٹا نجا شی نے حضور (ص) کے منجانب اللہ رسول ہو نے کی تصدیق کردی۔اس طرح جب ان کی تمام ریشہ دوانیاں ناکام ہو گئیں۔ اور نجاشی نے بھی انہیں بے عزت کر کے اپنے دربار سے نکال دیا۔
تو انہوں نے حضور (ص) اور بچے ہو ئے صحابہ کرام (رض) کےلئے مکہ کی زندگی اب اور بھی تنگ کرنے کا فیصلہ کیا۔
حضور (ص) کے اہل وعیال اور حضرت ابی طالب اور ان کے خاندان اور دیگر صحابہ کرام(رض) کوشہر چھوڑ نے پر مجبور کر دیا گیا۔
ان کے ظلم کی وجہ سے باہمی مشاورت سے یہ طے پایا کہ جو بچے ہو ئے لوگ ہیں وہ ایک جگہ جمع ہو جائیں تاکہ دفاع میں آسانی ہو اور سامانِ خورد و نوش بھی دوسری جگہوں سے حاصل ہو سکے۔ لہذا وہ مکہ سے باہر شعب ِ ابی طالب میں منتقل ہو گئے تاکہ وہ نہ صرف محفوظ رہیں بلکہ باہر رہ کر اپنی ضروریات زندگی بھی حاصل کر سکیں لہذا جناب ِ سیدہ (رض) بھی اپنے والدہ اور والد ِ محترم کے ساتھ وہاں منتقل ہو گئیں ۔ کیونکہ قریش نے، ایک معاہدے کے تحت حضور (ص)اور ان کے حمایتو ں کا مکمل بائیکاٹ کردیا تھا اور اس دست آویزکو کعبہ کی چھت پر آویزاں کر دیا تھا جس میں یہ طے کیا گیا تھاکہ بنی عبد المطلب کے وہ لوگ جو حضور (ص)کے حامی ہیں ان سے کوئی کسی قسم کا تعلق، لین دین، نہ رکھے اور ان سے رشتے وغیرہ نہ کئے جائیں۔
حتیٰ کہ ابولہب نے تو اپنے بیٹوں کو حکم دے دیا کہ وہ اپنی بیویوں کو بھی طلاق دے ۔ بد بختوں نے جو عہد نامہ تیار کیا تھا اس میں یہ شرائط تھیں کہ جب تک محمد رسول اﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنے نئے دین سے تائب ہو کر، وہ خوداور انکے ساتھی اپنےباپ دادا کے دین پر عامل نہ ہو جائیں ،اس وقت تک ان لوگوں سے نہ کسی قسم کا تعلق رکھا جائے اور نہ ہی خرید و فروخت کی جائے، نہ ہی رشتے کئے جائیں اور نہ رشتے دئے جائیں۔ اور اس عزم کو دہرایا گیا تھاکہ ہم میں سے کوئی بھی اور کبھی بھی اسلام قبول نہیں کرے گا۔ مگر یہ ان کا عہد نامہ تھا اور اﷲتعالیٰ کا اپنا منصوبہ تھا ۔ دنیا نے دیکھا کہ ان میں سے چند ایک کو چھوڑ کر جو جنگوں میں واصل ِ جہنم ہو ئے باقی سب نے بعد میں نہ صرف اسلام قبول کر لیا، بلکہ اقتدار پر بھی قابض ہو کر اول المسلمین سے بھی بہ زعم ِ خود مرتبے میں آگے نکلنے کے خودداعی بن گئے۔ اسی لئے کہا جاتا ہے کہ بندے کو منہ سے کچھ نکالنے سے پہلے کئی مرتبہ سوچ لیناچاہیئے۔
مگر یہاں بھی انہوں نے جان نہیں چھوڑی بلکہ ہر وقت محاصرہ کیئے رہتے۔ان کی شقاوت کا یہ حال تھا کہ شعب ابی طالب میں بچے بھوک سے اس طرح بلکتے تھے کہ انکی آوازیں دور دور تک سنائی دیتیں ، مگر ان کے دل نہیں پسیجتے۔ وہ شعب ابی طالب کے قریب کھڑے نگرانی کرتے رہتے تھے کہ کوئی چیز وہاں نہ پہونچنے پائے۔ اس طرح کافی عرصہ محاصرے کی حالت میں گزر گیا بعض مورخین تین سال سے لیکر سات سال تک لکھا ہے واللہ عالم۔ مگر یہ ضرور ماننا پڑے گا کہ وہ ایک طویل عرصہ تھا۔ اور نوبت یہاں تک پہو نچ گئی تھی کہ محصورین روزے پر روزے رکھتے ۔ اور اکثر گھاس پتوں اور پر گزارا کرتے۔ بلکہ بھوک میں سوکھے چمڑے تک چبا جا تے۔ اس سے حضرت سیدہ کی سیرت میں اور بھی نکھار پیدا ہوا کہ وہ اور بھی صابر اور شاکر ہو گئیں اور اکثر روزے سے رہتیں جس کا سلسلہ ان کی زندگی کے آخری دنو ں تک چلتا رہا۔
ایک دن خدیجہ الکبریٰ (رض) کے بھتیجے حکیم بن حزام اپنے ایک غلام کے ہمراہ اپنی پھوپھی حضرت خدیجہ (رض) کے لئے شعب ابی طالب میں کھانا لے جا رہے تھے کہ ابو جہل نے روکا اور ان سے کہا کہ وہ ہر گز کھانا نہیں لے جانے دے گا، بلکہ انہیں دھکے مارتے ہوئے واپس مکہ لے جائے گا۔ دریں اثناءان کے ایک رشتے کے چچا ابو الخیر بن حارث وہاں آ گئے اور پوچھنے لگے کہ کیا ماجرا ہے؟ جناب ِحکیم نے بتایا کہ میں پھوپھی کے لئے کھانا لے جارہا ہوں، مگر ابو جہل مزاحمت کر رہا ہے۔ اس کو انہوں نے سمجھانا چاہا مگر ابو جہل اڑ گیا کہ چاہے جو کچھ بھی ہو جائے مگر میں شعب ابی طالب میں کچھ نہیں لے جانے دوں گا۔ یہ سن کر ابو الخیر بھی طیش میں آ گئے اور انہوں نے اس کی داڑھی پکڑ لی ، اور پھر ان سے کہا تم کھانا لے جاؤ میں اسے دیکھتا ہوں؟
اصل میں جو لوگ باہر رہ گئے تھے اور محصورین سے رشتہ داریاں رکھتے تھے ان کے دلوں میں اپنے عزیزوں کے لیئے نرم گوشہ موجود تھا اور وہ چاہتے تھے کسی طرح صلح صفائی ہو جا ئےمگر مشکل یہ تھی کہ حضور (ص )کے لیئے تو یہ ممکن ہی نہ تھا کہ وہ ایک قدم بھی اپنے موقف سے پیچھے ہٹ سکیں ،دوسری طرف کفار کی کمزوری یہ تھی کہ وہ دیکھ رہے تھے کہ جتنی وہ مخالفت کر رہے ہیں اتنا اسلام پھیلتا جا رہا ہے لہذا وہ نہیں چاہتے کہ حضور (ص) کو مزید تبلیغ کا موقعہ ملے جب کہ حضور (ص)یہاں سے بھی ان کی آنکھوں میں دھول جھونک کر ہمیشہ طرح محاصرے سے باہر تشریف لے جاتے اور کسی نہ کسی قبیلے میں جاکر تبلیغ فر ماتے رہتے ۔ اتنے میں حضرت حمزہ (رض) باہر نکل آئے اور انہوں بھی حکیم کی مدد کی اور وہ کھانا پہوچا نے میں کامیاب ہو گئے ۔
اسی طرح اور بھی بہت سے لوگ تھے جو اپنے رشتہ داروں کو کھانا وغیرہ پہونچا تے تھےاور جو کچھ کہیں سے مل جاتا تو حضو(ص) راشن بندی فرمادیتے تاکہ سب کو کچھ نہ کچھ مل جا ئے۔
انہیں ھمدردوں میں ایک صاحب عمرو بن باشم بھی تھے ان کی کوششوں سے بنو عبد المطلب کے ہمدرد اٹھ کھڑے ہو ئے اور انہوں نے سوائے ابو جہل اور ابو لہب کے باقی سرداروں کو تیار کرلیا۔کہ وہ عہد نامہ چاک کر دیا جا ئے۔
اب مسئلہ یہ تھا کہ اس کو چاک کیسے کیا جا ئے جب تک کہ تمام سر دار متفق نہ ہوں ۔ تب حضو (ص) نےبتا یا کہ اس کو چاک کر نے کی ضرورت ہی نہیں ہے اس لیئے کہ اب سوائے میرے نام کے اس کو ڈیمک چاٹ چکی ہے، اور جب کھولا گیا تو واقعی سوائے نامِ گرامی (ص) کے اور کچھ اس میں لکھا ہوا موجود نہ تھا ۔ حضور (ص)کے اس معجزاتی انکشاف نے انہیں اور بھی حیرت میں ڈالدیا۔
اس طرح حضرت سیدہ اور ان کے خاندان کا با ئیکاٹ ختم ہوا۔ اب مسئلہ یہ تھا کہ جا ئیں تو جائیں کہاں کیونکہ حضرت خدیجہ والے مکان پر ابو سفیان نے قبضہ کر رکھا تھا اور حضور (ص) کے آبائی مکان پر ابو لہب نے۔ یہ ہی حالت دوسرے اہل ِ خاندا ن کی بھی تھی ۔
 

 

آپ کا تبصرہ شامل کریں

قارئین کے تبصرے

کوئی تبصرہ موجودنہیں ہے
*
*

امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک