امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک

جناب ِسیدہ فاطمہ الزہراء .پانچویں قسط

0 ووٹ دیں 00.0 / 5

ہم گزشتہ مضمون میں یہاں تک پہو نچے تھے کہ شعب ابو طالب سے حضرت فا طمہ الزہراء سلام اللہ علیہااپنے والدین کے ہمراہ واپس مکہ معظمہ تشریف لے آئیں ۔ مگر صورت حال یہ تھی کہ حضور (ص) کے دونوں مکانو ں پر دشمنو ں کا قبضہ ہو چکا تھا۔ کسی جا نثار نے اپنے گھر میں پنا ہ دی اور حضور (ص) نے دوبارہ زندگی شروع فر ما ئی ۔ اب آگے بڑھتے ہیں ۔ ابھی کچھ زیادہ دن نہیں گزرے تھے ۔ حضرت فا طمہ الزہراء (رض) کی والدہ محترمہ حضرت خدیجہ الکبریٰ (رض) شدید علیل ہو گئیں ۔ در اصل ان کو عمر رسیدگی میں مناسب غذا نہ ملنے کی وجہ نے نڈھال کر دیا تھا۔اور اب وہ نقا ہت رنگ لا رہی تھی ۔ یا د رہے کہ وہ حضور (ص) سے عمر میں بہت بڑی تھیں ۔ یہ صدمہ دونوں مثا لی ماں اور بیٹیوں کے لیئے ایک بڑا امتحان تھا۔ حضرت خدیجہ الکبری (رض) جو سب کچھ اپنا اسلام پر تج چکی تھیں ہر طرح مطمعن تھیں کہ انہیں یقین تھا کہ اللہ ان کے ساتھ ہے ۔مگر جب چا روں طرف دشمنوں کی سازشیں ہوں تو بیٹی کو اکیلا چھوڑ تے ہو ئے دل گھبرا رہا تھا۔ اس لیئے کہ حضور (ص) تو تبلیغ کے لیئے چلے جا ئیں گے اور علی جو کہ ان کے سا ئے کی طرح ساتھ لگے رہتے ہیں، وہ بھی ساتھ ہو ں گے۔ تو گھر پر تنہا حضرت فا طمہ (رض)کی نگہداشت کون کر ے گا وہ اکیلے گھبرا ئیں گی ۔
کیو نکہ جہاں تک حفا ظت کا خیال تھا تو اس کے لیئے انکا پریشان ہو نا ہما رے دل کو اس لیئے نہیں لگتا کہ ان سے اللہ پر بھروسہ کر نے والا حضور (ص) کے بعد کون ہو سکتا تھا۔ یہاں ایک مورخ نے بہت ہی عجیب و غریب وجہ بتا ئی ہے کہ وہ اس وجہ سے پر یشان تھیں کہ “شادی کی رات کے بارے میں ماں بیٹی کو ہدا یات دیتی ہے، میں نہیں ہو نگی تو کون دے گا؟ تو حضرت اسما ءبن عمیس نے انہیں یقین دہا نی کرا ئی کہ میں ایک ما ں کی طرح ان کی دیکھ بہال کرونگی “( حوالہ کے لیئے ملا حظہ فرما ئیں ً فاطمہ دی گریشیس از ابو محمد اُردنی صفحہ نمبر ایکسو چار، پبلشر انصاریان پبلیکیشن قم ایران)۔ یہ بات بھی ہما رے دل کو نہیں لگی اس لیئے کہ وہ اس وقت مو جود ہی نہیں تھیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ اس وقت حضرت جعفر طیار (رض) کی زوجیت میں تھیں اور تین سال پہلے ان کے ساتھ حبشہ ہجرت کر چکی تھیں ۔اورواپس حضور (ص)کی طلبی پر جب تشریف لا ئیں ، جب خیبر فتح ہوا۔ اس وقت تک حضرت خدیجہ الکبریٰ وفات پا چکیں تھیں اور حضرت فاطمہ (رض)کی شادی اور بچے بھی ہو چکے تھے ۔ دوسرے یہ کہ مشرقی تہذیب میں ماں کبھی بھی بیٹی سے انتی بے تکلف نہیں ہو ئی۔ بلکہ اس دور میں مغرب میں بھی اس موضوع پر بات کر نا کسی ماں کے لیئے ممکن نہ تھا۔ہاں حضرت اسماء بنت عمیس ( رض)کا حضرت فا طمہ (رض) کے وصال کے وقت انکے پاس موجود ہو نا ممکن ہے اور اپنی تہجیز اور تد فین ڈولی وغیرہ بنانے کے سلسلہ میں یقینی طور پر ان کو ہدا یات دی ہو نگی،اس کے ماننے میں کوئی بھی ہمیں امرمانع نہیں ہے۔ اس لیئے کہ وہ اس وقت حضرت ابو بکر (رض)کی زو جیت میں تھیں اور مدینہ منورہ میں موجود بھی ۔چونکہ ان سے خاندانی تعلق تھا وہ حضرت فاطمہ کی سگی چچی تھیں اور حضرت جعفر (رض)کے بچوں کی ماں بھی۔ حضور حضرت جعفر طیار کو بے حد چا ہتے بھی تھے ۔جو اس سے ظاہر ہے کہ جب وہ فتح خیبر کے موقعہ پر واپس خیبر کے مقام پر آکر ملے، تو فر مایا کہ “مجھے خیبر کی فتح سے کہیں زیادہ حضرت جعفر طیار (رض)کے ملنے کی خوشی ہو ئی ہے ۔ اس کے بعد وہ جنگِ موتہ میں شہادت پا گئے اور وہ بیوہ ہو گئیں تو حضرت ابو بکر (رض) نے ان سے نکا ح کر لیا تھا۔
حضور (ص) کو جب حضرت خدیجہ (رض)کی طبیعت زیادہ خراب ہو نے کی اطلا ع ملی تو وہ بھی تشریف لے آئے ، اورانہیں اتنہا ئی کرب کے حالت میں پایا، جب حضور (ص)نے حضرت خدیجہ (رض) کو چھو کر دیکھا تو بخار سے جسم تپ رہا تھا ۔ حضرت خدیجہ (رض) نے جب شدت مرض کی شکا یت کی تو حضور (رض)کی آنکھیں بھر آئیں !فر مایا اب جدائی کا وقت قریب آگیا ہے اور جنت تمہارا انتظار کر رہی ہے۔انہوں نے فر مایا کہ مجھے اپنی موت کا تو کوئی غم نہیں ہے، مگر غم یہ ہے کہ میں آپ کی رفاقت سے محروم ہو جا ؤنگی اور دوسرے مجھے فا طمہ کی فکر ہے کہ اس کی ابھی شادی نہیں ہو ئی اس کی شادی کا (انتخاب ) آپ کسی اور پر مت چھوڑ یئے گا تاکہ اسے یہ احساس نہ ہو نے پا ئے کہ وہ بے ماں کی بچی ہے، حضور (ص) نے وعدہ فر مایا تو وہ مطمعن ہو گئیں ۔
اس کے بعد انہوں نے یک اور درخواست پیش کی کہ آپ دم آخری تک میرے سامنے تشریف فر ما رہیں تاکہ میرا دم آسانی سے نکل جا ئے۔میرے آقا آپ کی خدمت گزاری میں گوکہ میں نے پچیس سال گزار دیئے، مگر ایسا لگتا ہے جیسے کل کی بات ہو۔ اب آپ سے در خواست ہے کہ روز محشر آپ اپنے دامن ِ رحمت میں جگہ عطا فر ما ئیے گا۔میں یہ بھی آپ سے التجا کرتی ہوں کہ مجھ سے آپ کی شان میں کوئی گستاخی ہو گئی ہو تو اس کو معاف فرما دیں، اور بروز قیامت میری شفا عت فر ما کر میری مشکل آسان کر یں ۔ ان کے اس درد انگیز خطاب سے حضور (ص) کے بھی آنسو بہنے لگے ۔اور فر مایاکہ یہ درست ہے کہ قیامت کا دن بہت سخت ہے ،مگر تمہارے ساتھ تو اللہ تعالیٰ نے وعدہ فر ما رکھا ہے ۔ تمہارے لیئے جنت میں موتیوں کا محل تیار ہے، میری غم گسار تم غم نہ کرو ،تم میرے ساتھ ہی رہو گی فل الحال تمہاری دوسرا ہت کے لیئےتین خواتین مو جود ہیں ۔ جب انہوں نے ان کے نام پو چھے تو حضور (ص)نے بتایا ام کلثوم (رض) ہمشیرہ مو سیٰ علیہ السلام ۔ حضرت آسیہ (رض)زوجہ فر عون اور حضرت صفورا (رض) زوجہ موسیٰ یہ سن کر وہ مطمعن ہو گئیں۔ یاد رہے کہ یہ تینوں خواتین روایت کے مطابق جیسا کہ ہم پہلے لکھ چکے ہیں حضرت فا طمہ (رض)کی ولادت کے وقت بھی موجود تھیں اور انہوں نےہی حضرت خدیجہ (رض) کی اس وقت مدد فر مائی تھی ۔
پھر انہوں ایک اور در خواست پیش فرمائی !مگر فر مایا کہ اس کے لیئے میں خود میں ہمت نہیں پاتی لہذا میں حضرت فا طمہ (رض) کے توسط سے آپ تک پہونچا ونگی۔ حضور (ص) ان کی اس خواہش پر ماں بیٹیوں کو تخلیہ فرا ہم کرنے کے لیئے حرم شریف طواف کے لیئے تشریف لے گئے ۔ حضرت فاطمہ (رض) نے ماں کے رخسار پر منہ رکھ کر فر ما یا کہ فر ما ئیے وہ کیا خواہش ہے میرے والد انشا اللہ آپ کی ہر خواہش ضرور پوری کریں گے؟ تب انہوں نے فر مایا کہ وہ یمنی چادر جو کہ نزو ل ِ وحی کے وقت حضور (ص) زیب ِ تن فر ماتے ہیں۔ اس میں مجھے لپیٹ دیا جائے، در ایں اثنا حضور (ص) بھی تشریف لے آئے اور ان کی خواہش سن کر وہ چادر شانہ مبارک سے اتار کر بیٹی کو دیدی کہ ان کو دکھا دیں تاکہ وہ خوش ہو جائیں۔ مگر اتنے میں حضرت جبرئیلامین تشریف لے آئے، حضرت خدیجہ کے لیئے جنت کا کفن لیکر اور فر ما یا کہ حضور اللہ سبحانہ تعالیٰ نے سلام بھیجا ہے اور فر مایا ہے کہ آپ اپنی چادر واپس لے لیں ،خدیجہ نے میری راہ میں اپنا سب کچھ قر بان کر دیا ہے اب اس کا کفن میرے ذمہ ہے ۔ہم اس کو اپنے کرم کے لباس سے ڈھانپیں گے اور اس کو جنت الفردوس کا لباس پہنایا جائے گا۔ واضح رہے کہ جس موتیوں کے محل کاذکر حضور نے فر مایا ہے تھا، اس کی بشارت متفقہ علیہ ہے کیونکہ اس کا ذکر بخاری مسلم اور مسند ِاحمد نیزابن ِ ہشام میں بھی موجود ہے۔ حضرت خدیجہ نے اپنی نگاہ حضور پر مرکوزرکھی اور اسی حالت میں موت کو لبیک کہا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔
 

 

آپ کا تبصرہ شامل کریں

قارئین کے تبصرے

کوئی تبصرہ موجودنہیں ہے
*
*

امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک