امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک

حضرت فاطمہ الزہراء دسویں قسط

0 ووٹ دیں 00.0 / 5

 

ہم گزشتہ مضمون میں سیدہ سلام اللہ علیہا کی شادی کا ذکر کر تے ہو ئے یہاں تک پہونچے تھے کہ ان کی شادی اور ولیمہ ہو گیا۔اب آگے بڑھتے ہیں ۔
ولیمہ والے دن صبح کو ایک فقیر ان کے گھر پر سوالی ہو ا کہ مجھے تن ڈھانپنے کے لیئے کپڑا چا ہئے ؟ حضرت سیدہ سلام اللہ علیہا نے سو چا کہ پتہ نہیں بیچا رے کو اپنے لیئے کپڑا چا ہیئے یا بال بچہ دار ہے ۔ سو چا کہ کیا دوں ؟ پھر نگا ہوں کے سامنے وہ آیت گھوم گئی کہ لن تنا لوالبر حتیٰ تنفقو ا مما تحبون
( ترجمہ ۔تم ہر گز بھلائی کو نہیں پہونچو گے جب تک خدا کی راہ میں سب سے پیاری چیز خرچ نہ کرو)۔ ظاہر ہے کہ ہر ایک لڑکی طرح ان کو بھی سب سے زیادہ اپنی وابستگی اس قمیض میں نظر آئی جو کہ کل جہیز میں ملی تھی ۔یہ پہلا امتحان تھا اس میں حضرت سیدہ (رض) بھلا کیسے فیل ہوسکتی تھیں۔ ان کی تو بچپن سے تر بیت ہی ایسی ہو ئی تھی۔ انہوں (رض) نے وہی قمیض اس سا ئل کے حوالے فر مادی ۔ (معارج نبوت)
اس بات سے حضور (ص) بے خبر تھے کہ حضرت جبرئیل (ع) ایک جوڑ کپڑے لے کر حاضر ہو ئے اور عرض کیا کہ آپ کی صاحبزدی کی خیرات کے بدلے میں مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں آپ کے توسط سے انہیں یہ خلعت فا خرہ پیش کروں۔ حضور (ص) یہ سن کر سجدہ شکر بجا لا ئے کہ اللہ نے ان کی خیرات قبول فر مائی ۔
ابو بکر طوسی(رح) سے ایک روایت ہے کہ حضرت علی کرم اللہ وجہ اور حضرت سیدہ کی شادی سے منافق خوش نہ تھے ان کا خیال تھا کہ خاندان ِ نبوت (ص) میںخلیج پیدا کر دیں ۔ اس نے حضرت علی کرم اللہ وجہ سے کہا کہ علی (رض) تم بہت بڑے عالم اور بہادر ہو۔ تمہیں جہیز میں کیا ملا سوائے چند معمولی چیزوں کہ اگر تم میری بیٹی سے شادی کر لو تو میں میں تمہیں مالا مال کر دونگا اور اپنے دروازے سے تمہارے در وازے تک اونٹوں کی قطاریں لگا دوں گا۔لیکن شرط یہ ہے کہ حضرت سیدہ (رض)کو طلاق دینا ہوگی ۔
حضرت علی کرم اللہ نے دو ٹوک جواب دیکر اس کو خاموش کر دیا کہ ہمیں خدا کی رضا کی ضرورت ہے، دنیا وی مال و دولت کی نہ مجھے حاجت ہے نہ خواہش ۔ اس بد بخت نے جب علی کرم اللہ وجہ کا یہ جواب سنا تو چپ چاپ چلا گیا۔
اتنے میں حضرت علی کرم اللہ وجہ نے ایک غیبی ندا سنی کہ اے علی (رض)منہ اوپر اٹھا کر دیکھو؟ جناب ِعلی کرم اللہ وجہ نے منہ اٹھاکر دیکھا تو اونٹوں کی قطاریں حد ِ نظر تک زر و جواہر سے لدی ہو ئی کھڑی ہیں اور ہر ایک اونٹ کے ساتھ ایک خادمہ بھی ہے۔ پھر ایک ندا آئی کہ یہ حضرت سیدہ (رض) کا جہیز ہے۔
حضرت علی کرم اللہ وجہ گھر تشریف لے گئے تاکہ یہ عجیب وغریب واقعہ حضرت فاطمہ (رض) سے بیان کر یں، مگر وہ اس پر پہلے ہی مطلع ہو چکی تھیں، لہذا انہیں دیکھتے ہی فر مانے لگیں کہ وہ واقعہ تم بتا ؤ گے یا میں تمہیں بتا وں؟ معترض کہہ سکتے ہیں کہ انہیں کیسے پتہ چل گیا ؟ انکو میرا جواب یہ ہے کہ انہیں کی اولاد میں تمام اولیا ء گزرے ہیں جب ان (رح) کو بہت سی باتیں معلوم ہو جا تی تھیں تو وہ تو ان سب کی ماں تھیں ۔
حضرت فاطمہ الزہرا بطور ہمسایہ رسول (ص) ۔جیسا کہ ہم پہلے عرض کر چکے ہیں کہ حضرت نے ایک گھر کرئے پر لیا تھا جو کہ تھوڑا دور تھا ۔ حضور (ص) کا روز مرہ کا معمول تھا کہ روز انہ حضرت فا طمہ (رض) کے گھر تشریف لے جاتے، ایک دن فر مانے لگے کہ کیا ہی اچھاہو تا کہ تمہارا مکان ہمارے قریب ہو تا اور ہم دن میں ایک آدھ بار آنے کے بجا ئے بار بار آتے ۔ اس پر انہوں (رض) نے بھی فر مایا کہ میرا دل بھی یہ ہی چاہتا ہے کہ میں آپ کے قریب رہوں تاکہ آپ کی نگہداشت حسب ِ سابق کرتی رہوں۔ آپ کے ہم سا یہ میں حضرت نعمان (رض) بن حارث کا مکان ہے، اگر اس کا کچھ حصہ مل کرا یہ پر مل جا ئے تو بہتر ہے ۔ اس پر حضور (ص)نے فر مایا کہ وہ پہلے ہی مہاجریں کو اپنی کافی زمین بلا معاوضہ دے چکے ہیں ۔ وہ تم سے بھی کو ئی معاوضہ قبول نہیں کر یں گے لہذا ان سے کچھ کہنا میں منا سب نہیں سمجھتا۔ بات آئی گئی ہو ئی۔ مگر یہ بات کسی طرح حضرت حارثہ (رض)بن نعمان تک پہونچ گئی اور انہوں نے دربار ِ رسالت ( ص)میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ مجھے معلوم ہے کہ آپ اپنی صاحبزدی کو اپنے قریب رکھنا چا ہتے ہیں ،لہذا میں نے اپنے گھر کا آپ سے ملحقہ حصہ خالی کردیاہے اور آپ کو پیش کررہا ہوں ۔ آپ حضرت علی کرم اللہ وجہ کو وہاں منتقل فر مادیں۔ تاکہ آپ کے آنکھوں کی ٹھنڈک آپ کے سامنے رہے۔
حضور (ص) نےقبول کر نے میں کچھ تامل فر مایا تو انہوں (رض) نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ میرے جان و مال آپ پر قر بان ہیں ۔ خدا کی قسم یہ اگر حضور (ص) قبول فر مالیں گے تو مجھے اس سے کہیں زیادہ سکون ِ قلب حا صل ہو گا، جتنا مجھے اسے اپنے پاس رکھنے پر حا صل ہو تا۔
جب انہوں نے زیادہ اصرار کیا تو حضو(ص) نے قبول فر مالیا اور ان کو بر کت کی دعا دی ۔ اس طرح حضرت علی کرم اللہ وجہ وہاں منتقل ہو گئے جوجگہ کہ اصحاب ِ صفہ کے اور حضور کی ابدی آرام گا ہ کے در میان واقع ہے اور مدینہ منورہ میں ابھی تک با قی ہے ۔ اس کے سلسلہ میں ایک روایت اور بھی حضرت عبد اللہ بن مسود (رض) ملتی ہے کہ کسی نے حضرت علی (رض) اور حضرت عثمان (رض)کی برا ئی کی تو فر مایا کہ حضرت عثمان (رض) کو تو اللہ سبحانہ تعالیٰ نے معاف کر دیا تھا۔ اور رہا علی (رض) کا معاملہ تو ان کا مکان تمہارے سامنے ہے ۔ (میرے خیال میں شاید یہ ایک لطیف اشا رہ تھا کہ یہ مکان قیامت تک تمام دست برد سے محفوظ رہے گا اور آج کی صورت حال گواہ ہے کہ مدینہ منورہ کا نقشہ بدل گیاہے مگر کا شانہ نبوت (ص) اور کا شانہ علی(رض) با قی ہے
امور َ خانہ داری۔ حضرت فاطمہ (رض) کی زندگی چونکہ حضور ص) کی زندگی کا پرتو تھی لہذا جس طرح حضور (ص)کا طریقہ کار تھا وہی ان کا بھی تھا ۔ نہ ان کی عبادت امور ِ خانہ داری میں حارج تھی نہ ان کا گھر گھرستن ہو نا ان کی عبادت میں حارج تھا۔ جس طرح والد ِ محترم مردوں کے لیئے نمو نہ تھے ویسے ہی صاحبزادی صاحبہ (رض) بھی گھر گھرستی میں خواتین کے لیئے نمو نہ تھیں ۔
اس کے لیئے سب سے بڑی سند تو حضرت علی کرم اللہ وجہ کی ہے۔ وہ فر ماتے ہیں میں نے زندگی میں فا طمہ (رض) سے زیادہ سلیقہ شعار کو ئی عورت نہیں دیکھی ۔ با وجود کچا مکان ہو نے کے وہ اپنے گھر کو بہت ہی صاف اور ستھرا رکھتیں تھیں کہ دیکھنے میں جنت کا تکڑا لگتا۔ کیونکہ یہاں یہ حدیث ان کے سامنے رہتی کہ صفا ئی نصف ایمان ہے، پھر وہ خود بھی طا ہرہ (رض) تھیں ۔ گوکہ گھر میں تھا ہی کیا اس کی تفصیل ہم آپ کو پہلے ہی بتا چکے ہیں ۔صرف سلیقہ تھا کہ وہ اس کو قرینے سے رکھتیں تو گھر سجا ہوا نظر آتا۔ہم پہلے بھی حضرت امام حسین (ع)کے حوالے سے بتا چکے ہیں کہ انہوں نے فر مایا کہ ً میری والدہ زیادہ تر وقت عبادت میں صرف کرتیں تھیں ً ۔مگر ان کی خوبی یہ تھی کہ اس کے با وجود بھی گھر کے علاوہ بچے بھی صاف ستھرے رہتے ۔ وہ چونکہ آٹا اپنے ہاتھ سے پیستی تھیں اور ان کے گھر میں یہ بھی کبھی نہیں ہوا کہ ایک وقت کا آٹا کبھی بچا ہو، جہاں حضرت علی کرم اللہ وجہ کچھ مزدوری کر کے لا ئے اور انہوں (رض) نے عبادت چھوڑی اور فور ً ا آٹا پیسا پکا یا اور بچوں کو جلدی سے کھلانے کی کوشش کی ۔مگر اکثراوقات ایسا ہو تا کہ ابھی بچوں کو دے بھی نہ پا ئیں کہ کو ئی سا ئل آگیا اور پورا کنبہ بھو کا رہ گیا۔ پانی کے مشکیزے بھی خود ہی بھر کر لا تیں کیونکہ حضرت علی کرم اللہ مزودوری کی تلاش میں اکثر نکل جاتے ۔ گھر میں جھا ڑو بھی خود لگا تیں، حتی ٰ کہ چہرہ مبا رک غبار میں اٹ جا تا۔ چو لہا جلا تیں اور پھونکتیں تو سا ری گر د اوپر پڑتی۔ اکثر دھوئیں سے آنکھو ں میں آنسو آجا تے ۔ مگر کبھی حرف شکا یت زبان پر نہیں لا ئیں ۔ ایک مورخ نے یہ لکھا ہے کہ ایک مرتبہ انہوں (رض)نے اپنے زخمی ہا تھ حضور (ص) کو دکھا ئے اور حضور (ص) سے ایک باندی کی فر ما ئش کی ؟ مگر اس سے میں اس لیئے متفق نہیں ہوں کہ فقر توباپ بیٹی اور دا ماد (رض)نے خود ہی اپنے لیئے پسند فر مایا تھا۔ ورنہ ان کے ایک اشا رے پر اللہ تعالیٰ ان کے در وازے پر دودھ اور شہد کی نہریں بہا دیتا۔ میں اپنے اس دعوے کے مزید ثبوت کے طور پر ان (رض)کا دور ِ خلافت پیش کر تا ہوں کہ خلیفہ ہو نے کے بعد بھی خوراک وہی رو کھی سو کھی رہی۔ وہاں ان کو روکنے والا کون تھا سوائے خوف ِ خدا اور تقوے کے۔( باقی آئندہ)
 

 

آپ کا تبصرہ شامل کریں

قارئین کے تبصرے

کوئی تبصرہ موجودنہیں ہے
*
*

امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک