فرقۂ سلفیہ پر ایک نظر
- شائع
-
- مؤلف:
- محمد علی مھتدی
- ذرائع:
- ترجمہ : مھدی حسن بھشتی( گروہ ترجمہ : سائٹ صادقین )
سلفی کس فرقے کو کھتے ھیں؟
کلمہ سلفی ایک بھترین کلمہ ھے جس کو اسلامی فکر میں کافی سراھا گیا ھے، اس کے معنی یہ ھیں کہ گزشتہ بزرگوں کی سیرت پر چلنا، بزرگوں کی اقتداء کرنے پر کتب شیعہ اور سنی میں کافی بحث و گفتگو کی گئی ھے، لھذا کلمۂ سلفی کو بھترین اصطلاحات میں شمار کرنا چاھئے، تمام علماء اور مفکرین اسلام نے گزشتہ بزرگوں کی سیرت پر چلنے کی کافی تاکید فرمائی ھے، لیکن افسوس اس بات کا ھے کہ آج کل سیاست کی زبان میں گروہ سلفی کا اطلاق ان لوگوں پر ھوتا ھے جو احکام اسلامی کو نھایت ھی جمود فکری کے ساتھ فقط ان کے ظواھر پر نظر رکھتے ھوئے کرتے ھیں اور ان باطن پر غور و فکر نھیں کرتے، چنانچہ وہ ھر نئی چیز کے حکم کے لئے ماضی کی طرف پلٹتے ھیں اور کو سنت پیغمبر کے آئینہ میں دیکھتے ھیں، اگر اس میں انھیں حکم ملتا ھے تو وھی حکم دیتے ھیں ورنہ اسے بدعت قرار دیتے ھیں ۔
یھی وجہ ھے کہ ان کے نظریات دنیا میں رونما ھونے والی ترقیوں سے شدید طور پر ٹکرا رھے ھیں، عصر حاضر میں سلفی اسے کھتے ھیں جو ابن تیمیہ اور افکار وھابیت سے متأثر ھوں، وہ ھر نئی چیز اور فکری استقلال کا انکار کرتے ھیں، لھٰذا وہ بھت سے مذاھب اور اسلامی معاشرہ کی تکفیر کرتے ھیں، لھٰذا وہ اپنے اور دوسرے مذاھب اسلامی کے درمیان ایک قسم کا ٹکراؤ پیدا کر رھے ھیں ۔
بنیاد پرستی اور سلفیوں میں کیا رابطہ ھے ؟
ان دونوں کلمہ کو آپس میں نھیں ملانا چاھئے،کیونکہ بنیاد پرستی ( Fundamentalism ) فنڈامنٹالیسم کا ترجمہ ھے، جو تاریخ یورپ میں اس دور میں ایک عجیب معنی میں استعمال کیا گیا ھے ( یعنی شدت پسندی ) وہ اپنے اندر غلط معنی لئے ھوئے ھے، جبکہ بنیاد پرستی اور اصول پرستی کے معنیٰ یہ ھیں کہ اصول اور ضوابط پر ثابت قدم رھنا ۔ لیکن سلفی ایک مثبت اور بھترین کلمہ ھے، جس کے معنی ھیں اصول و ضوابط پر پابندی کے ساتھ ساتھ دنیا میں ھونے والی ترقیوں کو بھی ملحوظ خاطر رکھیں اور ان کے ھمراہ چلتے رھیں، لھٰذا سلفی اور اصول پرستی دونوں کے معنیٰ جدا گانہ ھیں، کیونکہ اصول پرستی کے متعدد معنیٰ کئے گئے ھیں، لھٰذا دونوں کو ایک نگاہ سے نھیں دیکھا جاسکتا ۔
کیا آپ اصول پرستی اور بنیاد پرستی (پابند اصول) کو ایک تصور کر رھے ھیں،
جی ھاں، دونوں میں کیا فرق نھیں ھے، صرف کلمہ کے انتخاب میں فرق ھے، لیکن دونوں کے معنیٰ ایک ھیں اور دونوں مثبت پھلو بھی رکھتے ھیں، البتہ یھاں پر جو اصول پرستی اور بنیاد پرستی کے معنیٰ ھیں وہ (Fundamentalism) فنڈا منٹالیسم سے جدا معنی رکھتا ھے کہ جو مغربی دنیا میں استعمال ھو رھا ھے ۔
بنیاد پرستی یہ ھے کہ اصول و ضوابط کو پائمال نہ کریں اور نہ ھی ان سے تجاوز کریں، یہ ایک مثبت اور بھترین کلمہ ھے، جو کسی خاص طبقہ سے محدود نھیں کیا جاسکتا، لیکن یہ کلمات سے غلط معنی کا تصور صرف اس لئے ھوتا ھے کہ ترجمہ میں بھت زیادہ غور و فکر نھیں کیا جاتا ھے، جس کی بنیاد پر ایک کلمہ کو دوسرے کی جگہ استعمال کردیتے ھیں، جو مترادف کلمات کے بر خلاف فرض کئے جاتے ھیں ( جب کہ ترجمہ کے ذریعہ مترادف کلمہ تصور کرتے ھیں ) ممکن ھے کہ بعض اصطلاحات کو جب لغت اور وضع کے اعتبار سے دیکھیں تو کچھ اور معنیٰ ھوں، لیکن جب وھی اصطلاحات سیاسی دنیا میں دیکھیں تو کچھ اور معنیٰ اپنے دامن لئے ھوں، کیونکہ اھل سیاست اور بعض دینی احزاب ان سے سوء استفادہ کرتے ھیں (مثلا فنڈامنٹالیسم کے معنی (پابند اصول ) کے ھیں، جب اس کا ترجمہ فارسی میں ھوا تو ( بنیاد گرائی) کے معنی ھوئے ( یعنی پابند اصول ) جب کہ فنڈامنٹالیسم کے معنیٰ مغربی دنیا میں مسخ ھوگئے ھیں، لھٰذا دونوں معنیٰ میں مغایرت ھوگئی ھے ۔
سلفیوں کے درمیان مشترک عناصر کیا ھیں ؟
اس وقت ھم ان گروھوں کو سلفی کھتے ھیں جو افغانستان، پاکستان، عراق اور بعض عربی ممالک میں فعالیت انجام دے ھیں، در حقیقت یہ لوگ ابن تیمیہ اور وھابیوں کے افکار کو لے کر چل رھے ھیں، لیکن بعض لوگوں کا خیال ھے کہ سلفیت کی بنیادی سید قطب کی کتابیں ھیں، جو انھوں نے ۱۹۶۰ ء کے میں تحریر کی ھیں ۔
البتہ سید قطب سے پھلے جمال الدین اسد آباد یا ان کے شاگرد شیخ محمد عبدہ کی مصر میں کار کردگی سلفیت ھی کارنگ لئے ھوئے تھی لیکن اس طرح کی سلفیت نھیں تھی جو اس وقت ھے، بلکہ زیادہ تر ان کا مطمح نظر یہ تھا کہ استعماری سامراجی طاقتوں کا مقابلہ کریں، مسلمانوں کو خواب غفلت سے بیدار کریں اور ان میں نئی روح پھونکیں ۔
لیکن شیخ محمد عبدہ کے بعد ایسی فکریں سر زمین مصر سے وجود میں آئیں کہ جن کے نتیجے میں اھل مصر کو کافر اور انور سادات صدر جمھوریہ مصر کو قتل کردیا جاتا ھے ۔
وہ چیزیں جو سلفیوں کے درمیان مشترک ھیں، ان میں سے ایک یہ ھے کہ وہ ھر چیز کے حکم کے لئے زمانہ گزشتہ خصوصاً صدر اسلام کی طرف رجوع کرتے ھیں، اگر اس کا حکم موجود ھوتا ھے تو قبول کرتے ھیں اور اگر موجود نھیں ھوتا ھے تو وہ اجتھاد اور حکمِ عقل کو اس میں دخل نھیں دیتے، چنانچہ ابھی کچھ زمانہ پھلے کسی نے سعودی عربیہ میں یہ سوال کیا تھا کہ مریضوں کی عبادت کے لئے اسپتال میں پھول لیکر جانا کیسا ھے، اس کی شرعی کوئی دلیل ھے ؟ تو ایک سلفی عالم نے یہ جواب دیا کہ ھم نے قرآن، احادیث اور سنت میں بھت تلاش کیا، لیکن اس کا حکم ھمیں نھیں ملا، لھٰذا مریض کی عیادت کے لئے اسپتال میں پھول لے جانا حرام اور بدعت ھے، یہ حکم ایک طرح کی شدت پسندی و جمود فکری کا اظھار کرتا ھے اور تدبر و تفکر کو معطل قرار دیتا ھے، جبکہ قرآن حکیم نے اس کی بھت زیادہ تاکید فرمائی ھے، پس ان لوگوں کا ھر قسم کی اختراع، ایجاد اور تجدد کا انکار کرنا ایک اھم عنصر ھے ۔
تبلیغی اور عقیدتی نقطۂ نظر سے جب ان کی آراء کسی مذھب سے ٹکرا جاتی ھے تو اسے کافر کہہ دیتے ھیں، یھاں تک کی جھاد کے سلسلہ میں اسلام کے حقیقی دشمنوں سے مقابلہ کرنے کے بجائے اسلامی سماج میں زندگی گزارنے والے عام انسانوں سے مقابلہ پر اتر آتے ھیں اور انھیں نھایت ھی بے دردی سے موت کے گھاٹ اتار دیتے ھیں ۔
چنانچہ اس کا نمونہ ھم نے الجزائر میں مشاھدہ کیا ھے کہ جھاں سلفیوں نے بے دفاع اور مظلوم انسانوں کا قتل عام کردیا، اسی طرح عراق اور دوسرے ممالک میں ان کے بدست بے گناھوں کا خون بھایا گیا ھے، صرف اس بنیاد پر کہ وہ ان کے اور جو حکومت ان کا ھدف تھی، اس کے درمیان انھیں مانع پا رھے تھے،لھٰذا ان کے نقطہ نظر سے یہ درست کام ھے کہ ایسے اشخاص سے مبارزہ کیا جاسکتا ھے، وہ اس بات کے بھی منعقد ھیں کہ شرعاً ایسے لوگوں کا قتل کرنا واجب ھے، لھٰذا بری طرح لوگوں کا قتل عام کر رھے ھیں، یھی وجہ ھے کہ وہ سماج میں نفرت کی نگاہ سے دیکھے جاتے ھیں اور لوگوں کے درمیان کوئی مقام پیدا نھیں کر پا رھے ھیں کہ جس کے ذریعہ لوگوں میں انھیں مقبولیت حاصل ھو جائے ۔
شیعہ مذھب سے دشمنی کا رجحان ان کے مشترک عناصر میں سے ھے، البتہ سلفی فقط شیعوں سے ھی دشمنی نھیں کرتے ھیں، بلکہ اپنے علاوہ کسی مذھب کو تسلیم نھیں کرتے، زیادہ تر سلفی اھل سنت کے چار مذاھب ( شافعی، حنفی، مالکی، حنبلی ) میں سے حنبلی فرقہ سے تعلق رکھتے ھیں، فقہ میں امام احمد ابن حنبل کی پیروی کرتے ھیں اور فکری اعتبار ابن تیمیہ اور جنھوں نے ان گروھوں میں سے عصر حاضر میں ایسے افکر پر زیادہ کام کیا ھے، ان لوگوں کی پیروی کرتے ھیں ۔ یہ لوگ ابن تیمیہ کے مکتب فکر سے زیادہ متأثر ھیں اور ھم جانتے ھیں کہ ابن تیمیہ کی زیادہ تر دشمنی افکار تشیع اور اھل بیت علیھم السلام کی پیروی کرنے والوں سے تھی، چنانچہ وہ شیعوں کو دائرہ اسلام سے خارج سمجھتا تھا، لھٰذا سلفی بھی اسی اندھی تقلید میں شیعوں کو کافر اور خارج از دین جانتے ھیں، جس کی بنیاد پر انھیں نھایت ھی بے دردی سے قتل کرتے ھیں، اس چیز کو ھم نے افغانستان، پاکستان اور عراق میں مشاھدہ کیا ھے ۔
ان کی مذھب شیعہ سے بھت شدید دشمنی ھے اور دوسرے اسلامی مذاھب سے بھی خصومت رکھتے ھیں ان کو بھی بآسانی قبول نھیں کرتے ۔
سعودی عرب اور مغربی حکومتوں نے ۱۹۸۰ء کے میں روس کی فوج سے مقابلہ میں جو کہ افغانستان کو اپنے تصرف میں لئے ھوئے تھی، سلفیوں کو تقویت دی تھی، لیکن کیا وجہ ھے کہ سلفی جماعتیں سعودی اور مغربی حکومت کی مخالف ھوگئیں ؟
سب سے پھلے اس بات کو عرض کردوں کہ سعودی حکومت ۱۵۰ سے ۲۰۰ سال پھلے ایک مفاھمت کے نتیجہ میں وجود میں آئی ھے، جو مفاھمت وھابی تحریک اور آل سعود کی فوج کے درمیان ھوئی تھی جو کہ نجد میں تھی، ان دونوں کے درمیان حکومت برطانیہ نے بھی دخالت کی تھی، جس کے سبب یہ لوگ نجد پر تسلط پیدا کرنے کے لئے حجاز کی طرف آگے بڑھے، چنانچہ وسیع پیمانہ پر قتل و غارتگری کے ذریعہ حجاز کو بھی اپنے تصرف میں لینا چاھتے تھے (جس میں مکہ و مدینہ بھی شامل تھا ) اسی اثناء میں ان کے اور مصر کی فوج کے درمیان جو کہ محمد علی پاشا کی حکومت کے زمانہ میں اس کے بیٹے ابراھیم پاشا کی قیادت میں سعودی عرب روانہ کی گئی تھی ۔ لڑائی ھوگئی، ان جنگوں میں کہ جو خود اھل سنت کے درمیان واقع ھوئی تھی کافی قتل و غارتگری پیش آئی، چنانچہ انھوں نے اس لڑائی کے بعد نجد و حجاز کو بھی اپنے تصرف میں لے لیا اور اس پر قابض ھوگئے، چنانچہ سعودی حکومت اسی توافق کا نتیجہ ھے ۔ لھٰذا وہ کسی بھی صورت میں اس توافق کو پامال نھیں کر سکتی ھے، لیکن عصر حاضر میں سعودی اور پوری دنیا میں جو تبدیلیاں رونما ھوئی ھیں، اس کے نتیجہ میں وہ طلباء جو سعودی عرب سے فارغ التحصیل ھوکر مغربی دنیا میں تحصیلِ علم کے لئے گئے اور وھاں کی یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کی تو وہ اپنی مملکت میں ایک طرح کی اصلاح کرنا چاھتے ھیں، لھٰذا سعودی حکومت اس مصیبت میں گرفتار ھے تو دوسری طرف سلفیوں سے پریشان ھے، کیونکہ یہ لوگ افغانستان کے واقعہ کے بعد ایک خاص ھدف و مقصد اختیار کئے ھیں ( جو حکومت سعودی کے منافع کے بر خلاف ھے )
جس زمانہ میں افغانستان حکومت روس کے زیر تسلط تھا، سعودی حکومت نے امریکہ کے اشارہ پر، متحدہ عرب امارات کے تعاون اور پاکستانی خفیہ ایجنسیوں کے ذریعہ سلفیوں کو ( ریڈ آرمی ) لال فوج جو افغانستان کو اپنے تصرف میں لئے تھی اس کے مقابل بعنوان جھاد ایک نقطہ پر جمع کردیا تھا، لیکن جب لال فوج کا قبضہ ختم ھوگیا اور وہ پیچھے ھٹنے پر مجبور ھوگئی نیز روس بھی ٹکڑوں میں بٹ گیا، تو سلفی حدیث پیغمبر (ص) کی روشنی میں کہ " کفار کو جزیرۃ العرب میں مستقر نہ ھونے دو اور اگر وہ وھاں پر ساکن ھوں تو انھیں قتل کردو ) لھٰذا جو امریکہ، تیل اور فوجی اڈے یا دیگر مفاد کے بھانے جو سعودی میں مستقر ھے، یہ لوگ اس سے ھی مقابلہ پر اتر آئے، ان میں سر فھرست گروہ القاعدہ کا نام لیا جاسکتا ھے، البتہ بات بھی قابل ذکر ھے کہ مغرب اور اسرائیل کی خفیہ ایجنسیاں ممکن ھے کہ سلفیوں کے شعبہ جھاد میں نفوذ کئے ھوئے ھیں، جو ان کی غیر مستقیم طریقے سے راھنمائی کر رھے ھوں، اس طرح کہ بھت سے ان کے اقدامات اسرائیل کے منافع میں منتھی ھو رھے ھوں اور ھمسایہ ممالک میں تباھی و فساد پھیلا رھے ھوں، اس طرح کے بھت سے مسائل ھیں، جن میں کافی تحقیق و جستجو کرنے کی ضرورت در پیش ھے ۔
بالفاظ دیگر امریکہ، سعودی ۔ متحدہ عرب امارات اور پاکستان کی خفیہ ایجنسیاں، گروہ طالبان کو تشکیل دینے اور پیشاور میں سلفی مدارس کی مدد کرنے کے بعد یہ سب ایسے مشکلات سے دوچار ھوگئے ھیں کہ جو گروہ سلفی انھوں نے روس کی فوج، اور انقلاب اسلامی ایران کے ھمہ گیر افکار سے مقابلہ کے لئے آمادہ کیا تھا، اس کی وسیع پیمانہ پر تبلیغات کے ذریعہ وہ خود ایسے گرداب بلا میں پھنس گئے کہ انھیں کوئی راہ چارہ نظر نھیں آرھی ھے ۔
تکفیری رجحان ( دوسروں کو کافر کھنے کا رجحان ) اور سلفیوں میں کیا فرق ھے ؟
دوسرے اشخاص یا مذاھب یا معاشرہ کے بعض افراد کو کافر قرار دینا سلفیوں کا ھی شیوہ ھے ( لھذا تکفیری رجحان اور سلفیت میں کوئی فرق نھیں ھے ) لیکن ھمارے مذھب میں قرآن اور سنت پیغمبر (ص) کی روشنی میں انسان کچھ شرائط کے ساتھ مرتد کھا جاسکتا ھے، لھٰذا جو مرتد ھوجائے (یعنی دین سے پھر جائے ) تو وہ کافر ھے، اس کے معنی یہ ھرگز نھیں ھیں کہ جو گناہ کبیرہ انجام دے اسے بھی کافر کہہ دیں، کیونکہ ممکن ھے ایک انسان کلمہ شھادتین بھی زبان پر جاری کرتا ھو، نماز بھی پڑھتا ھو اور گناہ کبیرہ یا صغیرہ کا مرتکب بھی ھوتا ھو ۔
لیکن سلفیوں کے یھاں تکفیر کا دائرہ بھت وسیع ھے ۔ لھذا وہ مختلف بھانہ سے دوسرے اشخاص اور اسلامی معاشرہ کو کافر قرار دے دیتے ھیں ۔ جب کہ تمام علماء شیعہ اور اھل سنت معتقد ھیں کہ جو کلمۂ شھادتین زبان پر جاری کرے، وحدانیت پروردگار اور رسالت محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا اقرار کرے وہ مسلمان ھے، اس کی جان و مال و عزت و آبرو اور ناموس سب محترم ھیں، البتہ سلفیوں کے یھاں دوسروں کو کافر کھنا عام بات ھے جسے ھم مشاھدہ کرتے رھتے ھیں ۔ یھی وجہ ھے کہ ان میں شیعہ اور سنی کے درمیان نزاع ھوتا رھتا ھے ۔
کیا سلفی جمھوری اسلامی ایران کے قومی امن کو بھی تھدید کر رھے ھیں ؟
ایران کے اھل سنت اور دیگر ھمسایہ ممالک سے روابط " جیسے پاکستان، افغانستان اور عراق " کے حوالہ سے سلفی ایران کو تھدید بھی کر رھے ھیں، جب کہ ایران اور دوسرے ممالک میں شیعہ و سنی صلح و آشتی کے ساتھ زندگی گزار رھے ھیں اور آپس میں ایک دوسرے کو اسلامی اعتبار سے بھائی سمجھ رھے ھیں، لیکن اس وقت ھم جن حالات کا مشاھدہ افغانستان اور عراق میں کر رھے ھیں وہ آج کے بیس و پچیس سال پھلے نہ تھے، البتہ آپس میں علمی مباحثے ھوتے رھتے تھے، اس کا مطلب یہ نھیں تھا کہ ایک دوسرے کو کافر کھیں اور انھیں قتل کریں، لیکن اس وقت کی کیفیت پھلے سے فرق کرتی ھے ۔
یقینا اسلام دینِ اعتدال ھے اور امت اسلامی کو پروردگار نے قرآنِ حکیم میں امت وسط کھا ھے، لھٰذا ھر قسم کے افراط کی خداوند عالم نے مذمّت کی ھے، لیکن سلفی تمام مذاھبِ اسلامی کے لئے ایک ناسور بنے ھوئے ھیں، جو مختلف بھانہ سے برادران اسلامی کا خون بھا رھے ھیں اور انھیں کافر کہہ رھے ھیں، اس کی کوئی حد و حدود بھی نھیں پائی جاتی ھے، چنانچہ یہ ساری چیزیں دشمنان اسلام کے منفعت میں تمام ھو رھی ھیں ۔
ایک اور خطرہ سلفی فکر سے یہ ھے کہ وہ اسلام کے چھرہ کو مغربی دنیا کے سامنے بھت شدید بنا کر پیش کر رھے ھیں، جس کی وجہ سے اھل مغرب مسلمانوں، شدت پسند وغیرہ سے تعبیر کرتے ھیں اور دوسروں کو بھی اس نتیجہ تک پھونچاتے ھیں اور کھتے ھیں کہ اسلام کا مطلب ھے کہ دوسروں کو کافر کھنا، خونریزی برپا کرنا، مساجد، مکانات اور مدارس میں بم گزاری و دھماکہ کرنا، کوچہ و بازار میں لوگوں کا قتل عام کرنا ۔
چنانچہ جو حوادث اس وقت عراق میں رونما ھو رھے ھیں، وہ مسیحی اور مغربی دنیا میں اسلام پر ایک کاری ضرب لگائی جا رھی ھے، ان تمام چیزوں کے علاوہ جو مسلمان جو مغرب کی دنیا میں زندگی گزار رھے ھیں، اس وقت بھت زیادہ مشکلات سے دچار ھو رھے ھیں، چنانچہ دوسرے لوگ انھیں دھشت گرد کھتے ھیں کہ یہ ساری مصیبتیں صرف سلفیت کے طرز تفکر سے رونما ھوئی ھیں، وہ نہ صرف ایران بلکہ دوسرے ممالک کے لئے بھی خطرناک ھیں، البتہ ایران میں نہ سلفی تھے اور نہ ھیں میں نے خود زاھدان میں درس حاصل کیا اور وھیں پلا بڑھا ھوں، وھاں سنی اور شیعہ دونوں موجود ھیں، جو آپس میں برادرانہ زندگی گزار رھے ھیں، مجھے یاد ھے کہ ھم ایک ھفتہ نماز جمعہ شیعہ عالم آیت اللہ کسعوئی کہ اقتداء میں پڑھے تھے تو دوسرے ھفتہ شیعہ اور سنی مولوی عبد العزیز عالم اھل سنت کی اقتداء میں نماز جمعہ بجالاتے تھے، آپس میں کوئی اختلاف ھی نھیں تھا، لیکن ھمارے ملک میں خصوصا بلوچستان میں اس قسم کا ریشہ فکر وجود میں آیا تو وہ ایک دو سال قبل عبد الملک ریگی کے ذریعہ وہ استعمار کا ایجنٹ تھا، کیونکہ استعماری طاقتیں ایسے اشخاص کی پرورش کرتی ھیں، تاکہ ان کے ذریعہ دوسرے ممالک میں فتنہ و فساد برپا کریں، البتہ ھمارے ملک میں بعنوان ھم وطن لوگ برادرانہ زندگی گزار رھے ھیں، اس قسم کی افکار ھمارے ملک میں موجود نھیں تھیں ۔