امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک

صلح امام حسن علیہ السلام

0 ووٹ دیں 00.0 / 5

حضرت امام حسن علیہ السلام کا امیر شام کے ساتھ صلح کرنا ایک ایسا مسئلہ ھے جو اس وقت سے لے کر اب تک زیر بحث چلا آرھا ھے۔ امام علیہ السلام کے دور امامت میں بعض اشخاص نے " صلح امام حسن (ع) پر اعتراض کیا دیگر ائمہ معصومین (ع) کے ادوار میں بھی کچھ لوگ اسی طرح کے اعتراضات کرتے رھے اور یہ مسئلہ آج تک زیر بحث چلا آرھا ھے کہ حضرت امام حسن علیہ السلام نے معاویہ کے ساتھ صلح کیوں کی؟ اس قسم کے افراد سے یہ سوال اٹھتا ھے کہ آخر کیا وجہ ھے کہ امام حسن مجتبی علیہ السلام نے حاکم وقت کے ساتھ مصالحت کرلی تھی اور امام حسین علیہ السلام نے یذید کے ھاتھ پر بیعت قبول نہ کی۔ اور ابن زیاد کو صاف جواب دے دیا کہ مجھ جیسا معصوم یزید جیسے فاسق وفاجر کی بعیت نھیں کرسکتا۔ درحقیقت بات یہ ھے کہ امام حسین علیہ السلام چونکہ امام وقت تھے اور ان کےزمانئہ امامت میں ان سے بھتر شخص اور کوئی نھیں تھا۔ یزید تو یزید وہ دنیا کے کسی بڑے شخص کی بھی بیعت نھیں کر سکتے تھے کیو نکہ وہ امام وقت تھے۔
اعتراض کرنے والے حضرات اگر حقیقت حال کا مطالعہ کر لیتے تو وہ صلح امام حسن علیہ السلام پر کبھی بھی اعتراض نہ کرتے کیونکہ امام حسن (ع) کی صلح اور امام حسین (ع) کے قیام میں بہت بڑا فرق ھے۔ حالات اور ماحول کا بہت فرق تھا بعض لوگ کھتے ھیں کہ امام حسن علیہ السلام چونکہ ایک صلح پسندتھے اور امام حسین علیہ السلام جنگجو تھے اس لئے ایک جگہ پر صلح ھوئی اور دوسری جگہ پر جنگ اور قتل و کشتار جیسی صورت حال پیدا ھوگئی حالانکہ ایسا نھیں تھا۔ ان تمام اعتراضات کا ھم ایک ایک کرکے جواب دیں گے اور اس ثبوت کو پایۂ تکمیل تک پہنچائیں گے یہ دونوں شھزادے حق پر تھے انھوں نے جو جو بھی اقدام کیا وہ بھی حق پر تھا۔
اگر امام حسن علیہ السلام"امام حسین علیہ السلام کی جگہ پر ھوتے یا امام حسین (ع) امام حسن (ع) کی جگہ پر ھوتے تو ایک جیسی صورت حال پیدا ھوتی۔صلح حسن (ع) کے وقت حالات اور طرح کے تھے اور کربلا میں زمانہ اور حالات کا رخ کچھ اور تھا۔ امام حسن علیہ السلام کے دور امامت میں اسلام کی بقاء اس خاموشی میں مضمر تھی اور کربلا میں اسلام جھاد کے بغیر زندہ نھیں رہ سکتا تھا۔


بقول مولانا ظفر علی خان ؂
اسلام زندہ ھوتا ھے ھر کربلا کے بعد


میں بھی چاھتا ھوں کہ اس مسئلہ کے اردگرد بحث کروں عام طور پر جو لوگ صلح حسنی (ع) اور قیام حسین (ع) کے بارے میں بحث تمحیص کرتے ھیں ان کی گفتگو کا محور بھی یھی ھوتا ھے لیکن کچھ تجزیہ نگار اپنی پٹری سے اتر جاتے ھیں۔ وہ کھنا کچھ چاھتے ھیں کھہ کچھ اور دیتے ھیں۔ دراصل اسلام میں جھاد کا مسئلہ ایک بنیادی حیثیت رکھتا ھے اگر ان دونوں مسئلوں کو دیکھا جائے تو ان دونوں ھی میں فلسفہ جھاد عملی طور پر نمایاں نظر آئے گا۔ اسی جھاد کو مد نظر رکھتے ھوئے امام حسن (ع) نے خاموشی اختیار کر لی تھی اور اسی جھاد کی خاطر امام حسین (ع) نے میدان جنگ میں آکر صرف اپنا نھیں بلکہ اسلام و قرآن کا دفاع کیا۔ ھماری بحث کا محور بھی یھی بات رھے گی کہ امام حسن علیہ السلام نے حاکم وقت کے ساتھ صلح کی توکیوں کی اور امام حسین (ع) میدان جھاد میں یزیدی فوجوں سے نبرد آزما ھوئے تو کیوں ھوئے؟

 

پیغمبر اکرم (ص) اور صلح

جب ھم غور وخوض کرتے ھیں تو ھمیں واضح طور پر معلوم ھوتا ھے کہ مسئلہ صلح صرف امام حسن (ع) کے ساتھ خاص نھیں ھے، بلکہ یہ مسئلہ پیغمبر اسلام کے دور رسالت سے بھی مطابقت رکھتا ھے۔ جناب رسالت مآب (ص) بعثت کے ابتدائی سالوں سے لے کر آخر مدت تک مکہ میں رھے لیکن جب آپ دوسرے سال میں مدینہ تشریف لائے تو آپ کا رویہ مشرکین کے ساتھ انتھائی نرم اور ملائم تھا۔ حالانکہ مشرکین نے حضور پاک کو اور دیگر مسلمانوں کو بہت زیادہ اذیتیں دی تھیں اور ان کا جینا حرام کردیا تھا۔ آخر مسلمانوں نے تنگ آکر حضور سے جنگ کی اجازت چاھی اور عرض کی سرکار آپ ھمیں صرف ایک مرتبہ جنگ کی اجازت مرحمت فرما دیں تو ھم ان کافروں، مشرکوں کو ایسا یاد گار سبق سکھائیں کہ یہ آئندہ ھماری طرف آنکھ اٹھا کر بھی نھیں دیکھیں گے آپ نے مسلمانوں کو جنگ کی اجازت نہ دی اور ان کو امن وآشتی اور صبر وتحمل کے ساتھ زندگی گزارنے کی تلقین کی۔
آپ نے فرمایا لڑنے جھگڑنے سے صورت حال مزید خراب ھوگی اس لئے بھتر یہ ھے کہ خاموش رھا جائے۔ اگر کسی کو اس حالت میں نھیں رھنا ھے تو وہ سرزمین حجاز سے حبشہ کی طرف ھجرت کرسکتا ھے۔ لیکن پیغمبر اکرم (ص) نے جب مکہ سے مدینہ کی طرف ھجرت فرمائی تو اس وقت یہ آیت نازل ھوئی ۔
"اذن للذین یقاتلون بانهم ظلموا وان الله علی نصرهم لقدیر" 12
"یعنی جن (مسلمانوں) سے (کفار) لڑا کرتے تھے چونکہ وہ (بہت) ستائے گئے اس وجہ سے انھیں بھی (جھادکی) اجازت دے دی گئی اور خدا تو ان لوگوں کی مدد پر یقیناً قادر (و توانا) ھے" اب سوال یہ پیدا ھوتا ھے کہ آیا اسلام جنگ کا دین ھے یا صلح کا؟ اگر صلح کا دین ھے تو ھمیشہ اسی پالیسی پر عمل کرنا چاھیے۔ دین کا کام تو لوگوں کو نیک کام کی دعوت دینا ھے ۔ گویا دین ایک پیغام ھے پھنچ گیا تو ٹھیک نہ پھنچا تو کوئی بات نھیں ۔
اگر اسلام جنگ کا دین ھوتا تو پھر رسول خدا نے مکہ میں تیرہ (۱۳) سال تک جنگ کی اجازت کیوں نھیں دی یھاں تک کہ دفاع کی اجازت بھی نہ دی۔ دراصل بات یہ ھے کہ اسلام وقت اقر حالات کو دیکھتا ھے اگر صلح کا مقام ھو تو حکم دیتا ھے کہ جنگ نہ کرو اور جنگ اور دفاع کی نوبت آجائے تو پھر سکوت کو جائز قرار نھیں دیتا ۔ ھم رسول خدا کی سیرت طیبہ کا مطالعہ کرتے ھوئے دیکھتے ھیں کہ حضور اکرم (ص) مکہ میں کچھ مقامات پر کفار و مشرکین کے ساتھ جنگیں کررھے ھیں اور بعض مقامات پر صلح کی قراردادوں پر دستخط کررھے ھیں جیسا کہ حدیبیہ کے مقام پر آپ مشرکین مکہ سے صلح کررھے ھیں۔ حالانکہ یہ مشرک آپ کے سخت ترین دشمن تھے ۔ یھاں پر صحابہ کرام نے بھی صلح پر دستخط کیے۔ پھر ھم دیکھتے ھیں کہ آپ مدینہ میں یھودیوں کےساتھ یہ عھد و پیمان کر رھے ھیں کہ ان کے ذاتی امور میں ان کو آزاد چھوڑا جائے گا۔ یہ فرمایئے اس کے متعلق آپ کیا کھیں گے؟

 

حضرت علی (ع) اور صلح

اسی طرح ھم دیکھتے ھیں کہ حضرت امیرالمومنین (ع) ایک جگہ پر لڑتے ھیں اور دوسری جگہ پر نھیں لڑتے۔ پیغمبر اکرم (ص) کی رحلت کے بعد خلافت کا مسئلہ پیدا ھوجانا اور خلاف دوسرے لے جاتے ھیں علی علیہ السلام اس مقام پر جنگ نھیں کرتے، تلوار اپنے ھاتھ میں نھیں لیتے اور فرماتے ھیں کہ مجھے حکم ھوا ھے کہ میں نہ لڑوں اور نہ ھی مجھے لڑائی میں حصہ لینا چاھیے۔ دوسروں کی طرف سے جوں جوں سختی پریشانی بڑھتی جاتی ھے آپ اس قدر نرم ھوتے جارھے ھیں۔ ایک وقت ایسا بھی آجاتا ھے کہ حضرت زھرا (ع) کو پوچھنا پڑتا ھے کہ
"ما لک یاابن ابی طالب اشتملت شملة الجنین و قعدت حجرة الطنین" 13 اے ابو طالب کے بیٹے آپ کی حالت جنین کی طرح کیوں ھوگئی ھے کہ جو شکم مادر میں ھاتھ اور پاؤں کو سمیٹ لیتا ھے آپ اس شخص کی مانند ایک کمرہ میں گوشہ نشین ھو کر رہ گئے ھیں کہ جو لوگوں کے شرم کی وجہ سے گھر سے باھر نھیں نکلتا؟ آپ وھی تو ھیں کہ آپ کے سامنے میدان جنگ میں بڑے بڑے پھلوانوں کے پتے پانی ھوجایا کرتے اور آپ کو دیکھ کر بڑے بڑے جری بھادر جرنیل بھاگ جاتے تھے۔ اب آپ کی حالت یہ ھے کہ یہ ٹڈی دل لوگ آپ پر غالب آگئے ھیں آخر کیوں"؟
حضرت فرماتے ھیں اے میرے رسول (ص) کی پیاری بیٹی!اس وقت میری ذمہ داری اس طرح کی تھی اور اب میرا فریضہ یہ ھے کہ میں چپ رھوں، خاموش رھوں، صبر وتحمل سے کام لوں۔ یھاں تک کہ پچیس سال اسی حالت میں گزرجاتے ھیں۔ ان پچیس (۲۵) سالوں کی مدت میں علی (ع) خاموش رھے۔ پھر ایک وقت ایسا بھی آتا ھے کہ عثمان غنی قتل کردیئے جاتے ھیں۔ حالات بدل جاتے ھیں، لوگوں کا بہت بڑا ھجوم آپ کے در عصمت پر آتا ھے ان میں کچھ لوگ ایسے بھی ھیں جو علی (ع) کو قتل عثمان میں ملوث کرنا چاھتے ھیں کچھ ایسے افراد بھی ھیں جو کھتے ھیں مولا آپ مسند خلافت پر تشریف لے آیئے کچھ ایسے بھی ھیں جو آپ سے تقاضا کرتے ھیں کہ یا علی (ع) قاتلین عثمان کو پکڑ کر قرار واقعی سزادی جائے آخر وھی وقت آگیا جس کی نشاندھی آپ نے نھج البلاغہ میں کی ھے۔ آپ نے عثمان سے کھا تھا کہ مجھے ڈر ھے کہ کوئی شخص آپ کو قتل کرکے مسلمانوں کے درمیان عجیب صورت حال پیدا ھوگئی ایک طرف عثمان کے مخالفوں کا گروہ تھا دوسری طرف عثمان تھے"لیکن آپ نے ھمیشہ عدل وانصاف کے ساتھ فیصلہ کیا۔
قارئین کرام ! آیتہ اللہ شھید مطھری (رح) اور علامہ مفتی جعفر حسین مرحوم کی عبارتیں ایک دوسرے سے ملتی جلتی ھیں اس لئے ھم مفتی صاحب قبلہ کی عبارت پیش کرتے ھیں وہ نھج البلاغہ کے صفحہ نمبر ۱۱۴پر رقمطراز ھیں کہ جب حضرت عمر ابو لولوکے ھاتھوں سے زخمی ھوئے اور دیکھا کہ اس کاری زخم سے جانبر ھونا مشکل ھے تو آپ نے انتخاب خلیفہ کیلئےایک مجلس شوری تشکیل دی جس میں علی ابن ابی طالب، عثمان ابن عفان ، عبدالرحمٰن ابن عوف، زبیر ابن عوام، سعد ابن ابی وقاص اور طلحہ ابن عبیداللہ کو نامزد کیا اور ان پر یہ پابندی عائد کردی کہ وہ انکے مرنےکے بعد تین دن کے اندر اندر اپنے میں سے ایک کو خلافت کے لئے منتخب کر لیں اور یہ تینوں دن امامت کے فرائض انجام دیں۔ ان ھدایت کے بعد ارکان شوری میں سے کچھ لوگوں نے ان سے کھا کہ آپ ھمارے متعلق جو خیالات رکھتے ھوں ان کا اظھار فرماتے جائیں تاکہ انکی روشنی میں قدم اٹھایا جائے۔ اس پر آپ نے فرداً فرداً ھر ایک کے متعلق اپنی زریں رائے کا اظھار فرمایا۔ چنانچہ سعد کے متعلق کھا کہ وہ درشت خو اور تند مزاج ھیں اور عبدالرحمن اس امت کے فرعون ھیں اور زبیر خوش ھوں تو مومن اور غصہ میں ھوں تو کافر اور طلحہ غرور و نخوت کا پتلا ھے اگر انھیں خلیفہ بنایا گیا تو خلافت کی انگوٹھی اپنی بیوی کے ھاتھ میں پھنا دیں گے اور عثمان کو اپنے قوم وقبیلہ کے علاوہ کوئی دوسرا نظر نھیں آتا رھے علی علیہ السلام تو وہ خلافت پر ریجھے ھوئے ھیں۔
اگر چہ میں جانتا ھوں کہ ایک وھی ایسے ھیں جو خلافت کو صحیح راہ پر چلائیں گے مگر اس کے اعتراف کے باوجود آپ نے مجلس شوری کی تشکیل ضروری سمجھی اور اس کے انتخاب ارکان اور طریق کار میں وہ تمام صورتیں پیدا کردیں کہ جس سے خلافت کا رخ ادھر ھی بڑھے جدھر آپ موڑنا چاھتے تھے۔ چنانچہ تھوڑی بہت سمجھ بوجھ سے کام لینے والا بآسانی اس نتیجے پر پھنچ سکتا ھے کہ اس میں عثمان کی کامیابی کے تمام اسباب فراھم تھے اس کے ارکان کو دیکھئے تو ان میں ایک عثمان کے بھنوئی عبدالرحمٰن بن عوف ھیں اور دوسرے سعد بن وقاص ھیں جو امیر المومنین (ع) سے کینہ وعناد رکھنے کے باوجود عبدالرحمٰن کے عزیز و ھم قبیلہ بھی ھیں ان دونوں میں سے کسی ایک کو بھی عثمان کے خلاف تصور نھیں کیا جاسکتا، تیسرے طلحہ بن عبید اللہ تھے طبری وغیرہ کی روایت سے معلوم ھوتا ھے کہ طلحہ اس موقعہ پر مدینہ میں موجود نہ تھے لیکن ان کی عدم موجودگی عثمان کی کامیابی میں سدراہ نہ تھی بلکہ وہ موجود بھی ھوتے، جیسا کہ شوری کے موقعہ پر پھنچ گئے تھے اور انھیں امیر المومنین (ع) کا ھمنوا بھی سمجھ لیا جائے تب بھی عثمان کی کامیابی میں کوئی شبہ نہ تھا کیونکہ حضرت عمر کے ذھن رسانے طریقہ کار یہ تجویز کیا تھا "کہ اگر دو ایک پر اور دو ایک پر رضامند ھوں تو اس صورت میں عبداللہ بن عمر کو ثالث بناؤ جس فریق کے متعلق وہ حکم لگائے وہ فریق اپنے میں سے خلیفہ کا انتخاب کرے اور اگر وہ عبداللہ ابن عمر کے فیصلے پر رضا مند نہ ھوں تو تم اس فریق کا ساتھ دو جس میں عبدالرحمٰن بن عوف ھو اور دوسرے لوگ اگر اس سے اتفاق نہ کریں تو انھیں اس متفقہ فیصلے کی خلاف ورزی کرنے کی وجہ سے قتل کردو ۔ 14
اس مقام پر عبداللہ ابن عمر کے فیصلہ پر نارضامندی کے کیا معنی جب کہ انھیں یہ ھدایت کر دی جاتی ھے کہ وہ اسی گروہ کا ساتھ دیں جس میں عبدالرحمٰن ھوں۔ چنانچہ عبداللہ کو حکم دیا کہ اے عبداللہ اگر قوم میں اختلاف ھو تو تم اکثریت کا ساتھ دینا اور اگر تین ایک طرف ھوں اور تین ایک طرف تو تم اس فریق کا ساتھ دینا جس میں عبدالرحمٰن ھوں۔ اس فھمائش سے اکثریت کی ھمنوائی سے بھی یھی مراد ھے کہ عبدالرحمٰن کا ساتھ دیا جائے کیونکہ دوسری طرف اکثریت ھوھی کیونکر سکتی تھی جب کہ ابو طلحہ انصاری کی زیر قیادت پچاس خونخوار تلواروں کو حزب مخالف کے سروں پر مسلط کر کے عبدالرحمٰن کے اشارہ چشم وآبرو پر جھکنے کیلئے مجبور کردیا گیا تھا۔ چنانچہ امیر المومنین (ع) کی نظروں نے اس وقت بھانپ لیا تھا کہ خلافت عثمان کی ھوگی جیسا کہ آپ کے اس کلام سے ظاھر ھے جو ابن عباس سے مخاطب ھو کر فرمایا خلافت کا رخ ھم سے موڑ دیا گیا ھے۔ انھوں نے کھا کہ یہ کیسے معلوم ھوا فرمایا کہ میرے ساتھ عثمان کو بھی لگا دیا ھے اور یہ کھا ھے کہ اکثریت کا ساتھ دو اور اگر دو ایک پر اور دو ایک پر رضامند ھوں تو تم ان لوگوں کا ساتھ دو جن میں عبدالرحمٰن بن عوف ھو۔ چنانچہ سعد تو اپنے چچیرے بھائی عبدالرحمٰن کا ساتھ دے گا اور عبدالرحمٰن تو عثمان کا بھنوئی ھوتا ھی ھے۔
بھر حال حضرت عمر کی رحلت کے بعد یہ اجتماع ھوا اور دروازہ پر ابو طلحہ انصاری پچاس آدمیوں کے ساتھ شمشیر بکف آکھڑا ھوا۔ طلحہ نے کارروائی کی ابتداء کی اور سب کو گواہ بنا کر کھا کہ میں اپنا حق رائے دھندگی عثمان کو دیتا ھوں۔ اس پر زبیر کی رگ حمیت پھڑکی (کیونکہ ان کی والدہ حضرت کی پھوپھی صفیہ بنت عبدالمطلب تھیں) اور انھوں نے اپنا حق رائے دھندگی عبد الرحمٰن کے حوالے کردیا۔ اب مجلس شوری کے ارکان صرف تین رہ گئے جن میں عبدالرحمٰن نے کھا کہ میں اس شرط پر اپنے حق سے دستبردار ھونے کیلئے تیار ھوں کہ آپ دونوں (علی ابن ابی طالب (ع) اور عثمان ابن عفان) اپنے میں سے ایک کو منتخب کر لینے کا حق مجھے دینے دیں یا آپ میں سے کوئی دستبردار ھو کر یہ حق لے لے۔
یہ ایک ایسا جال تھا جس میں امیر المومنین (ع) کو ھر طرف سے جکڑ لیا گیا تھا کہ یاتو اپنے حق میں دستبردار ھوجائیں یا عبدالرحمٰن کو اپنی من مانی کاروائی کرنے دیں۔ پھلی صورت آپ کیلئے ممکن ھی نہ تھی کہ حق سے دستبردار ھو کر عثمان یا عبد الرحمٰن کو منتخب کریں۔ اس لئے آپ اپنے حق پر جمے رھے اور عبدالرحمٰن نے اپنے کو اس سے یہ اختیار سنبھال لیا اور امیر المومنین (ع) سے مخاطب ھو کر کھا، میں اس شرط پر آپ کی بیعت کرتا ھوں کہ آپ کتاب خدا، سنت رسول اور ابو بکر کی سیرت پر چلیں" آپ نے کھا نھیں میں اللہ کی کتاب، رسول کی سنت اور اپنے مسلک پر چلوں گا۔ تین مرتبہ دریافت کرنے کے بعد جب یھی جواب ملا تو عثمان سے مخاطب ھو کر کھا کیا آپ کو یہ شرائط منظور ھیں۔ ان کے لئے انکار کی کوئی وجہ نہ تھی انھوں نے ان شرائط کو مان لیا اور ان کی بیعت ھوگئی۔ بھرصورت امیر المومنین (ع) نے فتنہ و فساد کو روکنے اور حجت تمام کرنے کیلئے اس میں شرکت گوارا فرمائی تاکہ ان کے ذھنوں پر قفل پڑجائیں اور یہ نہ کھتے پھریں کہ ھم تو انھی کےحق میں رائے دیتے مگر خود انھوں نے شوری سے کنارہ کشی کرلی اور ھمیں موقع نہ دیا کہ ھم آپ کو منتخب کرتے ۔)
آیۃ اللہ شھید مطھری تحریر فرماتے ھیں کہ حضرت علی علیہ السلام سے پوچھا گیا کہ آپ نے یھاں پر ایسی سیاست اختیار کیوں کی؟ تو آپ نے فرمایا :
"والله لاسلمن ما سلمت امور المسلمین ولم یکن فیها جورالاعلی خاصة" 15
"خدا کی قسم جب تک مسلمانوں کے امور کا نظم ونسق برقرار رھے گا اور صرف میری ھی ذات ظلم وجور کا نشانہ بنتی رھے گی میں خاموشی اختیار کرتا رھوں گا۔"
عثمان کی رحلت کے بعد لوگ آپ کے دردولت پر آکر بیعت کرتے ھیں۔ یہ معاویہ کا دور ھے۔ ماحول بدل جاتا ھے یھاں پر حضرت علی علیہ السلام ناکثین، قاسطین، مارقین، یعنی اصحاب جمل، اصحاب صفین، اصحاب نھروان سے جنگ کرتے ھیں۔ اور یہ جنگ طول پکڑ جاتی ھے۔ چنانچہ صفین کے بعد عمر وعاص اور معاویہ کی عیارانہ ومکارانہ پالیسی کام دکھا جاتی ھے۔ خوارج قرآن مجید کو نیزوں پر بلند کرکے آواز بلند کرتے ھیں کہ اس جنگ میں قرآن مجید کے فیصلہ کے مطابق عمل کرنا چاھیے۔ قرآن کو نوک نیزہ پر دیکھ کر کچھ لوگ کھتے ھیں کہ جنگ بندی کا مطالبہ کرنے والے حق پر ھیں۔ امیر المومنین (ع) کے لشکر میں کھلبلی مچ گئی۔ اب مولا علی (ع) کو مصلحت کے مطابق خاموشی اختیار کرنا پڑی۔
آپ نے مجبور ھو کر حکم کو تسلیم کیا۔ آپ نے فرمایا حکم قرآن وسنت کے مطابق فیصلہ کریں۔ دراصل یہ ایک طرح کی منافقانہ چال تھی یہ لوگ مولا علی علیہ السلام کو وقتی طور پر خاموش کرنا چاھتے تھے۔ عمر وعاص اپنے مشن میں کامیاب ھو گیا اس نے ابو موسی کو بھی دھوکہ دیا لیکن حقیقت بعد میں کھل کر سامنے آگئی کہ ان دونوں نے ایک دوسرے کے ساتھ دھوکہ کیا ان میں سے ایک شخص کھتا ھے کہ دو ھزار افراد پر مشتمل لشکر میری وجہ سے پیچھے ھٹا ھے کہ نوبت گالی گلوچ تک پھنچ گئی۔ دراصل یہ خود ساختہ حکمیت کا اعجاز تھا۔ اب اعتراض کرنے والے کھتے ھیں کہ اگر چہ مولانے خوارج کے ھاتھوں مجبور ھو کر جنگ بندی کا اعلان کر دیا زیادہ سے زیادہ یھی ھوجاتا کہ آپ قتل ھو جاتے یا آپ کے بیٹوں میں سے ایک شھید ھو جاتا وہ یہ بھی کھتے ھیں کہ پیغمبر اسلام (ص) نے جنگ میں پہل نھیں کی۔ زیادہ سے زیادہ وہ شھید ھوجاتے۔ آپ نے حدیبیہ کے مقام پر صلح کیوں کی؟ جس طرح کربلا میں امام حسین (ع) شھید ھوگئے" رسول خدا (ص) بھی شھید ھوجاتے؟ پھر امیر المومنین نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحلت کے بعد خاموشی اختیار کیوں کی؟زیادہ سے زیادہ آپ شھید ھو جاتے؟ آپ نے حکمیت کو کیوں تسلیم کیا؟ آپ کو چاھیے تھا کہ جان کی پروا کیے بغیر جنگ جاری رکھتے؟ مسئلہ امام حسن (ع) کی صلح اور امام حسین (ع) کی جنگ پر ختم نھیں ھوتا بلکہ بات باقی آئمہ طاھرین (ع) تک بھی پہنچتی ھے۔ میں ان تمام سوالات، ابھامات کا ایک ایک جواب دوں گا۔ سب سے پہلے میں آپ کیلئے کتاب جھاد میں فقہ کے ایک باب کو بیان کرتا ھوں تاکہ آپ کو میری گفتگو کے دیگر نکات بخوبی سمجھ میں آسکیں ۔

 

فقہ جعفریہ میں جھاد کا تصور

بلا شبہ اسلام جھاد کا دین ھے اور یہ چند مقامات پر واجب ھے۔ ان میں سے ایک ابتدائی جھاد ھے یعنی یہ اس وقت واجب ھوتا ھے جب مد مقابل غیر مسلمان ھوں۔ خاص طور پر اگر وہ مشرک ھوں۔ اگر کوئی مشرک مسلمانوں پر حملہ کرتا ھے تو اس کو منہ توڑ جواب دیا جائے ایسا جھاد بالغ، عاقل اور آزاد شخص پر واجب ھے ۔ اور مجاھد مرد ھونا ضروری ھے۔ عورتوں کیلئے جھاد میں حصہ لینا ضروری نہیں ھے ۔ اس قسم کے جھاد میں امام علیہ السلام یا ان کے نائب سے اجازت لینا ضروری ھے ۔ شیعہ فقہ کے نزدیک اس وقت ایک حاکم شرعی اپنی طرف سے جھاد ابتدائی کو اپنی طرف سے شروع نھیں کرسکتا۔ دوسرا مقام یہ ھے کہ جب مسلمانوں کو کافروں، مشرکوں کی طرف سے خطرہ یا وہ جان بوجھ کر مسلمانوں کے خلاف دست درازی کرے یا ایک ملک کسی دوسرے اسلامی ملک کی زمین پر قبضہ کرنا چاہے یا قبضہ کر چکا ھو یا اس قسم کا کوئی ناجائز اقدام کرے تو اس صورت میں عورت مرد، چھوٹے بڑے، آزاد غلام پر جھاد میں شرکت کرنا واجب ھو جاتا ھے۔ اس جھاد میں امام علیہ السلام یا ان کے نائب سے اجازت لینا ضروری نھیں ھے ۔ یہ تمام شیعہ فقھاء کا متفقہ طور پر فتوی ھے اس سلسلے میں شھید ثانی علیہ الرحمہ کی فقھی رائے پیش خدمت ھے جناب محقق کی فقہ پر ایک کتاب ھے ۔ اس کا نام ھے شرائع الاسلام، اس کتاب کو شیعہ علما ء میں بڑی عزت واحترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا ھے۔ جناب شھید ثانی نے" مسالک الافھام " کے نام سے اس کی شرح کی ھے، بہت ھی عمدہ شرح ھے۔ جناب شھید ثانی کا شمار شیعوں کے صف اول کے فقھاء میں سے ھوتا ھے ۔ وہ فرماتے ھیں کہ جب کوئی کافر یا مشرک یا کوئی بے دین شخص مسلمانوں پر حملہ کرتا ھے تو تمام مسلمانوں پر واجب ھے کہ وہ سب مل کر جھاد میں بھر پور طریقے کے ساتھ حصہ لیں ۔
آپ اسرائیل کو لے لیجئے اس نے مسلمانوں کی سر زمین پر قبضہ کر رکھا ھے اور آئے روز فلسطینی مسلمانوں کے خلاف جارحیت کا ارتکاب کرتا رھتا ھے۔ تو یھاں پر دنیا بھر کے تمام مسلمانوں پر فرض عائد ھوتا ھے کہ وہ اسرائیل کی ظالمانہ کاروائیوں کے خلاف عملی طور پر جھاد میں شریک ھوں" یھاں پر امام علیہ السلام کی اجازت کی شرط نھیں ھے ۔ اسی طرح دوسرے اسلامی ممالک جو غیر اسلامی ملک کی حمایت کرسکتا ھے کرے۔ یہ سب کچھ جھاد کے زمرے میں آجاتا ھے۔ جناب شھید ثانی تحریر فرماتے ھیں کہ:
"ولا یختص بمن قصد ومن المسلمین بل یجب علی من علم بالحال النهوض اذا لم یعلم قدرة المقصودین علی المقاومة" 16
" یعنی یہ جھاد (ان لوگوں کے ساتھ خاص نھیں ھے کہ جن کی سر زمین، مال، جان اور ناموس غیر مسلموں کے قبضہ میں ھے بلکہ یہ ھر اس مسلمان پر واجب ھے کہ جس کو دوسرے مسلمان کی اس مشکل کے بارے میں علم ھو تو اس پر جھاد واجب ھے مگر شرط یہ ھے، اگر وہ لوگ خود طاقت ورھوں اور خود دفاع کرسکتے ھوں تو پھر یہ وجوب ساقط ھو جاتا ھے ۔ اگر اس کو یہ علم ھو کہ جن مسلمانوں پر ظلم ھو رھا ھے ان کو دوسرے مسلمانوں کی مدد کی ضرورت ھے تو پھر ھر مسلمان پر واجب ولازم ھے کہ جس طرح بھی ھوسکے وہ اپنے مظلوم بھائیوں کی ھر طرح سے بھر پور مدد کرے ۔"
تیسری قسم جھاد خصوصی کی ھے اس کے احکام اور عمومی جھاد کے احکام میں فرق ھے۔ عمومی جھاد کے مسائل خاص نوعیت کے ھیں۔ اس جھاد میں اگر کوئی قتل ھو جائے تو وہ شھید ھے اور غسل نھیں ھے۔ جو شخص رسمی جھاد میں مارا جائے تو اس کو اسی لباس کے ساتھ غسل دیئے بغیر اس خون کے ساتھ دفن کیا جائے ؂

خون، شھیدان راز آب اولی تراست
ایں گنہ از صد ثواب اولی تر است
" شھید کا خون پاک ترین، خالص ترین پانی سے بھتر ھے یہ گناہ ھزار ثواب سے بھتر ھے"۔
اصطلاح میں تیسری قسم کو جھاد کھتے ھیں لیکن اس جھاد کے احکام جھاد کی مانند نھیں ھیں۔ اس کا ثواب جھاد کے اجر کی مانند ھے۔ اس میں حصہ لینے والا شھید ھے، وہ ایسے ھے کہ اگر ایک شخص سرزمین کفر میں ھو اگر وھاں کافروں کی لڑائی دوسرے کفار کے ساتھ ھو جائے مثلاًوہ فرانس میں ھے اور فرانس اور جرمنی میں جنگ چھڑ جاتی ھے، اب ایک مسلمان پر کیا ذمہ داری عائد ھوتی ھے؟ اس پر لازم ھے کہ وہ خود کو ھر لحاظ سے بچانے کی کوشش کرے، اس کو وہاں کے لوگوں کی خاطر نھیں لڑنا چایئے، اگر وہ جانتا ھے کہ اگر وہ دوسرے ملک کی فوجوں کے ساتھ لڑائی میں شریک نھیں ھوتا تو اس کی جان کو خطرہ ھے اگر اسی خطرہ کے پیش نظر وہ میدان جنگ میں آکر لڑتا ھے تو شھید ھے۔ آپ اسے مجاھد کھہ سکتے ھیں، اگر چہ وہ شھیدوں جیسا حکم نھیں رکھتا۔ اس کو غسل دیا جائے گا کفن دینا پڑے گا۔
اب ایک اور صورت پیدا ھو جاتی ھے اس کے بارے میں فقھاء نے رائے دی ھے کہ اگر ایک شخص پر اس کا ایک دشمن حملہ کرتا ھے اس کی جان یا عزت کو خطرہ لاحق ھے اور اس کا یہ دشمن مسلمان ھے مثال کے طور پر ایک گھر میں سویا ھوا ھے کہ ایک چور یا ڈاکو گھس آتا ھے۔ (حاجی کلباسی نے کہا تھا کہ اگر نماز تھجد بھی پڑھتا ھو چور چور ھے، ڈاکو ڈاکو ھے اس کے نماز روزے اور مسلمان ھونے کا کوئی فائدہ نھیں ھے) تو یھاں پر اگر اس کو جان مال اور عزت کا خطرہ ھے، تو اس کو یھاں پر دفاع کرنا چاھیے، حتی الامکان چوروں، ڈاکوؤں کا مقابلہ کرنا چاھیے وہ یہ نہ سوچے کہ اگر وہ مجھ پر حملہ کرے گا تو میں اس کا جواب دوں گا۔ بلکہ اس پر لازم ھے کہ ڈاکو کو جان سے مار دے۔ اس حالت میں اگر وہ مارا جاتا ھے تو وہ شھید کے حق میں ھے۔ یہ ایک لمبی بحث ھے فقہ کی کتب میں آپ اس کی تفصیل ملاحظ کرسکتے ھیں۔

 

سر کشوں سے جنگ

جھاد کے میں نے تین مقامات ذکر کیے ھیں، دو مقامات اور بھی ھیں، ایک کو سرکشوں کے ساتھ جنگ کرنے کو کھتے ھیں۔ اگر مسلمانوں کے درمیان جنگ چھڑ جاتی ھے ایک گروہ دوسرے گروہ کو قتل کرنا چاھتا ھے تو یھاں پر دوسرے تمام مسلمانوں پر فرض عائد ھوتا ھے کہ وہ سب سے پھلے تو ان کے درمیان صلح کرائیں۔ ان کو ھر حال میں لڑنے جھگڑنے سے ھٹائیں اگر ایک گروہ ان مسلمانوں کی نہ مانے اور مسلسل جنگ پر آمادگی کا اظھار کرے تو ان پر لازم ھے کہ وہ مظلوم گروہ کی حمایت کریں اور سرکش گروہ کے ساتھ مقابلہ کریں چنانچہ ارشاد الہٰی ھے۔
" وان طائفتان من المومنین اقتتلو فاصلحوا بینهما فان بغت احدیهما علی الاخری فقاتلوا التی تبغی حتی تفتئی الی امر الله" 17
" اور اگر مومنین میں سے دو فرقے آپس میں لڑ پڑیں تو ان دونوں میں صلح کرادو پھر اگر ان میں سے ایک (فریق) دوسرے پر زیادتی کرے تو جو فرقہ زیادتی کرے تم (بھی) اس سے لڑو یھاں تک کہ وہ خدا کے حکم کی طرف رجوع کرے"۔
کبھی ایسا بھی ھوتا ھے کہ کوئی شخص ایک عادل امام کے خلاف بغاوت کرتا ھے چونکہ وہ امام (ع) ھے اس لئے حق پر ھے، اور امام (ع) کے خلاف آنے والا جو بھی ھوگا باطل پر ھوگا۔ اب دوسرے لوگوں پر واجب ھے کہ وہ امام کا ساتھ دیں اور دشمن امام (ع) کے خلاف جنگ کریں۔ جھاد کا ایک اور مرحلہ یا مقام بھی ھے اگر چہ فقھا کا اس میں کچھ اختلاف ھے وہ ھے امر بالمعروف اور نھی عن المنکر کیلئے خونی انقلاب برپا کرنا۔

 

صلح اور فقہ جعفریہ

ایک مسئلہ جو کتاب جھاد میں سامنے آیا ھے وہ مسئلہ صلح ھے۔ فقھاء کی اصطلاح میں اس کو مھدیا مھادنہ کھا جاتا ھے مھادنہ یعنی مصالحت، ھدنہ یعنی صلح، صلح کا معنی یہ ھے کہ جنگ نہ کرنے کا معاھدہ۔ آج کل کی اصطلاح میں ایک دوسرے کے ساتھ صلح وصفائی کے ساتھ رھنے کے عھد و پیمان کو صلح نامہ کھا جاتا ھے۔ جناب محقق شرائع الاسلام میں فرماتے ھیں کہ
"المهادنة وهی المعاقدة علی ترک الحرب مدۃ معینة"
" یعنی جنگ نہ کرنے اور امن وآشتی کے ساتھ رھنے پر عھد وپیمان باندھنے کو صلح کھا جاتا ھے لیکن اس کیلئے ایک مدت معین کی جائے" فقہ کی کتب میں لکھا ھے کہ اگر ایک شخص مشرک ھے کہ جس سے کرنا جائز ھے اس کے ساتھ بھی صلح کی جاسکتی ھے لیکن عھد و پیمان کی ایک مدت مقرر کی جائے۔ اس کے ساتھ چھ مہینوں، ایک سال، دس سال یا اس سے زیادہ کی مدت معین کرے۔ جیسا کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حدیبیہ کے مقام پر دس سال کا معاھدہ کیا تھا:
"وهی جائزة اذا تضمنت مصلحة للمسلمین"
جناب محقق کھتے ھیں اگر اس میں مسلمانوں کو فائدہ پہچنے تو صلح کرنا جائز ھے حرام نھیں ھے۔"
لیکن میں نے عرض کیا ھے کہ اگر ایسا موقعہ ھو کہ جھاں جنگ کرنا ضروری ھے جیسا کہ مسلمانوں کی سر زمین پر کفار نے حملہ کیا ھے یا مسلمانوں کی سر زمین پر قبضہ کردیا جاتا ھے، تو دوسرے مسلمانوں پر واجب ھے کہ ھر حالت میں اس عظیم سرزمین کو دشمن کے قبضہ سے چھڑانا چاھیے۔ اب اگر مصلحت کے تحت وھی دشمن صلح نامہ لے آتا ھے تو آیا اس پر دستخط کرنا جائز ھے یا نھیں؟جناب محقق کا کہنا ھے کہ اگر مصلحت بھی ھو تو ایک مدت معین کرنی چاھیے۔ اس کا مقصد یہ کہ یہ صلح ایک عارضی مدت کے لئے ھو رھی ھے۔ اب سوال یہ ھے کہ مسلمان کس صلح نامہ کو قبول کریں؟ جناب محقق کھتے ھیں:
"اما لقلتهم عن المقاومة"
"یعنی جب مسلمانوں میں جنگ کرنے کی طاقت نہ ھو تو انھیں چاھیے کہ کچھ مدت کیلئے صبر کریں اور خود کو مسلح اور طاقتور بنائیں" اور
او لما یحصل به الا استظهار"
"یا وہ جنگ بندی ا س لئے کر رھے ھیں کہ وہ جنگ کی مزید تیاری کرلیں"۔
او لرجاء الدخول فی الاسلام مع التربص"
"یا صلح اس امید کے ساتھ کی جارھی ھے کہ حزب مخالف اسلام قبول کرنا چاھتا ھو یہ اس وقت ھوگا جب مخالف کافر ھوں۔"
یعنی ھم ایک مدت کیلئے دشمن سے صلح کر رھے ھیں۔ اس عرصہ کے دوران ھم روحانی و فکری لحاظ سے ان پر غلبہ حاصل کرلیں گے جیسا کہ صلح حدیبیہ میں تھا۔ اس کے بارے میں چند مطالب آگے چل کر بیان کروں گا۔
"ومتی ارتفعت ذلک وکان فی المسلمین قوۃ علی الخصم لم یجز"
جس وقت یہ شرائط ختم ھو جائیں تو صلح بر قرار رکھنا جائز نھیں ھے۔"
اب تھوڑی سی گفتگو کے بعد یہ بات واضح وروشن ھوگئی کہ اسلامی فقہ کے نزدیک صلح چند خاص شرائط کے تحت جائز ھے۔ اب یہ صلح خواہ ایک قرار داد کی صورت میں ھو یا فقط زبانی طور پر جنگ بندی کا معاھدہ کیا جائے۔ یھاں پر دو باتیں قابل ذکر ھیں ایک وقت میں ھم کھتے ھیں کہ صلح کا معنی یہ ھے کہ ایک قرار داد باندھی جائے یہ اس جگہ پر ھوگا جب دو مخالف گروہ صلح پر آمادگی کا اظھار کریں جیسا کہ ھمارے پیغمبر اکرم (ص) نے کھا ھے اور آپ (ص) کی سیرت طیبہ پر عمل کرتے ھوئے امام حسن علیہ السلام نے کھا ایک موقعہ پر ھم کھتے ھیں کہ صلح یعنی جنگ نہ کرنا اور امن وآشتی کی راہ کو تلاش کرنا۔ کھا گیا ھے کہ ایک وقت ھم دیکھتے ھیں کہ ھم میں جنگ کی طاقت نھیں ھے تو اس وقت جنگ کرنے کا کوئی فائدہ نھیں ھے اس لیے ھم جنگ نہ کریں۔ صدر اسلام میں تو اسی طرح صورت حال پیش آئی تھی۔ اس وقت مسلمانوں کی تعداد بہت کم تھی، اگر وہ اس وقت لڑتے تو اپنا ھی نقصان کرتے۔ ممکن ھے جنگ بندی اس لئے کی گئی ھو کہ اس وقفے کے دوران خود کو مضبوط اور طاقتور کرنا چاھتے ھوں یا فکری لحاظ سے ان کی سوچ بدل کر ان کو مومن ومسلمان بنانا مقصود ھو۔ اب ھم آپ کے لئے صلح حدیبیہ کے بارے میں کچھ مطالب پیش کرتے ھیں۔ آپ دیکھیں گے کہ امام حسن علیہ السلام کا صلح کرنے کا انداز بالکل اپنے جد امجد حضرت محمد مصطفی (ص) جیسا تھا۔ آپ نے حالات و واقعات کو سامنے رکھتے ھوئے یا ایک خاص وقت کے انتظار یا تیاری میں ھتھیار نہ اٹھائے بلکہ انتھائی حکمت ودانشمندی کے ساتھ دشمن کے ساتھ صلح کر لی۔

 

صلح حدیبیہ

پیغمبر اکرم (ص) نے جب اپنے دور رسالت میں صلح کی تو آپ کے بعض صحابہ کرام نے نہ فقط تعجب کیا بلکہ سخت پریشان بھی ھوئے۔ لیکن ایک یا دو سال گزرنے کے بعد ان پر اس صلح کے ثمرات ونتائج ظاھر ھوئے تو پھر ماننے پر مجبور ھوگئے کہ سرکار رسلت مآب (ص) نے جو بھی کیا ٹھیک کیا تھا۔ چھ ھجری ھے جنگ بدر کا ایسا خونی واقعہ رونما ھوا قریش مکہ حضور (ص) کے بارے میں اپنے دل میں سخت بغض وکینہ رکھتے تھے۔ اس کے بعد جنگ احد ھوئی جس طرح قریش حضور کے بارے میں سخت نفرت کا اظھار کرتے تھے۔ مسلمان اس سے بڑھ کر قریش سے نفرت کرتے تھے گویا قریش کے نزدیک ان کے سخت ترین دشمن پیغمبر اکرم (ص) تھے اور مسلمانوں کے نزدیک ان کے سب سے بڑے دشمن قریش تھے۔ ادھر ماہ ذی الحجہ کا چاند نظر آگیا یہ ان کی اصطلاح میں ماہ حرام کھلاتا تھا ۔
ان کی جاھلانہ رسم کے مطابق یہ بات طے تھی کہ ماہ حرام میں وہ اسلحہ زمین پر رکھ دیتے اور مکمل طور پر جنگ سے ھاتھ اٹھا لیتے تھے۔ عربوں میں بہت زیادہ دشمنیاں تھیں، یھی وجہ ھے اس زمانے میں قتل وکشتار بھی اتنا زیادہ تھا لیکن ماہ حرام میں اس مھینہ کے احترام میں وہ خاموش ھوجاتے۔ بڑے سے بڑے دشمن کو بھی کچھ نھیں کھتے تھے، حضور رسالتمآب (ص) نے سوچا کہ کیوں نہ ان کی جاھلانہ رسم سے فائدہ اٹھاتے ھوئے مکہ تشریف لے جائیں اور وھاں سے عمرہ کر کے واپس تشریف لے آئیں۔ اس کے علاوہ آپ کا اور کوئی ارادہ نہ تھا اور تیاری کا اعلان فرمایا اور سات سو آدمی (ایک اور روایت کے مطابق چودہ سو آدمی جن میں آپ کے صحابہ کرام اور دیگر لوگ بھی شامل تھے۔ مکہ کی طرف رہسپار ھوئے۔ لیکن آپ جب مدینہ سے نکلے تو حالت احرام میں آگئے، چونکہ آپ کا حج قران تھا، اس لئے آپ کی قربانی کے جانور آپ کے آگے آگے چلے۔ قربانی کے جانوروں کے گلے میں جوتی لٹکا دی، زمانہ قدیم میں یہ رسم تھی کہ جو بھی کسی جانور کو اس حالت میں دیکھتا تو وہ خود بخود سمجھ جاتا تھا کہ یہ قربانی کا جانور ھے۔ چنانچہ سات سو افراد کی مناسبت سے سات سو جانور خریدا گیا اور اسی خاص علامت کے ساتھ ان کو قافلے کے آگے اپنے ھمراہ لیا۔ تاکہ دیکھنے والے یہ بخوبی اندازہ لگا سکیں کہ یہ لوگ حج کرنے جارھے ھیں۔ جنگ کی غرض سے نھیں آئے ھیں یہ کام اور یہ پروگرام علانیہ تھا اس لئے قریش کو سب سے حضور (ص) اور آپ کے ساتھیوں کی آمد کی اطلاع مل چکی تھی تو جب آپ مکہ کے قریب پھنچے تو زن ومرد چھوٹے بڑے غرضیکہ تمام قریش گھروں سے باھر نکل کر مکہ سے باھر آگئے اور انھوں نے کھا کہ خدا کی قسم! ھم محمد (ص) کو مکہ میں داخل ھونے کی اجازت ھر گز نھیں دیں گے۔
حالانکہ وہ ماہ حرام تھا اور کھا کہ ھم اس مہینے میں بھی جنگ کریں گے وہ عربوں کی اس پرانی اور مروجہ رسم کی خلاف ورزی کرنا چاھتے تھے، آپ قریش کے خیموں کے پاس تشریف لے گئے اور اپنے ساتھیوں کو حکم دیا کہ وہ اپنی اپنی سواریوں سے نیچے اترآئیں اور قریش سے کھا کہ تم بھی اپنے چند آدمی تیار کرو تاکہ یا ھمی تبادلہ خیال سے مسئلہ حل ھو سکے۔ چنانچہ قریش کے چند بزرگ آدمی حضور (ص) کی خدمت میں آئے اور کہا کہ آپ (ص) یھاں کیوں اور کس مقصد کیلئے آئے ھیں؟ پیغمبر اسلام (ص) نے فرمایا میں حاجی ھوں اور حج ھی کی ادئیگی کیلئے آیا ھوں اس کے سوا میرا کوئی کام نھیں ھے۔ حج سے فراغت پاتے ھی فوراً واپس چلا جاؤں گا۔
ان میں سے جو بھی آتا ان کو دیکھ کر واپس چلا جاتا اگر چہ وہ مطمئن تھے پھر بھی انھوں نے بات نہ مانی۔ پیغمبر اسلام (ص) اور آپ کے ھمراھیوں نے یہ پکا ارادہ کر لیا کہ وہ ھر صورت میں مکہ میں داخل ھوں گے۔ ان کا پروگرام لڑائی کا نہ تھا۔ ھاں اگر ھم پر قریش نے حملہ کیا تو ان کا دندان شکن جواب دیں گے۔ سب سے پھلے تو بیعت الرضوان کی رسم ادا کی گئی۔ اصحاب نے از سر نو آپ (ص) کی بیعت کی، جس میں طے یہ پایا۔ اگر قریش کا نمائندہ صلح کا پیغام لے کر آیا تو ھم بھی صلح کریں گے، طرفین سے نمائندوں کی آمد و رفت شروع ھوئی۔ آپ نے اپنے نمائندوں سے کھا کہ جاکر قریش سے کہہ دو کہ:
"ویح قریش اکلتهم الحرب"
افسوس ھے قریش پر جنگ نے ان کو کھا لیا"
اب یہ لوگ مجھ سے کیا چاھتے ھیں؟ مجھے یہ لوگ دوسرے ساتھیوں کے ساتھ مکہ میں جانے دیں گے تو اس سے بھی قریش کو فائدہ ھو گا۔ انھوں نے کھا ھمیں آپ کی کوئی شرط قابل قبول نھیں ھے ھم صرف اور صرف صلح کیلئے قرار داد پاس کرتے ھیں۔ اس سلسلے میں قریش کی طرف سے سھیل بن عمرو نمائندگی کے فرائض ادا کر رھا تھا۔ صلح نامہ میں یہ مطالبہ کیا گیا کہ حضور اکرم (ص) امسال واپس چلے جائیں اور اگلے سال آئیں اور تین روز تک قیام کرسکتے ھیں۔ آپ عمرہ کرکے واپس چلے جائیں یہ صلح نامہ اگر چہ ظاھر میں مسلمانوں کے حق میں بھتر نہ تھا ان میں ایک شرط یہ تھی کہ اگر ایک قریشی دیگر مسلمانوں کے ساتھ مل جائے تو قریش کا حق حاصل ھوگا کہ وہ اس کو اپنے پاس لے آئیں۔ اگر ایک مسلمان قریش کے ساتھ مل جائے تو مسلمانوں کو حق حاصل نہ ھوگا کہ اس کو وھاں سے لے جائیں۔ آپ نے فرمایا ھماری بھی ایک شرط ھے کہ مسلمان مکہ میں آزادی کے ساتھ رھیں اور ان پر کسی قسم کی سختی نہ کی جائے۔ آپ نے ایک شرط کی خاطر ان کی تمام شرائط کو قبول کر لیا، اور اس ایک شرط کی خاطر قرار داد پر دستخط کر دیئے۔ اس سے کچھ مسلمان کو سخت تکلیف ھوئی۔ عرض کی یا رسول اللہ یہ ھماری بے عزتی ھے کہ ھم مکہ کے نزدیک آکر واپس لوٹ جائیں۔ کیا یہ بات درست ھے؟ ھم تو واپس نھیں جائیں گے۔ آپ (ص) نے فرمایا قرار داد تو یھی ھے اور اس پر طرفین کے دستخط بھی ھوچکے ھیں اب تو ھمیں عمل کرنا ھوگا۔ پھر آپ (ص) نے فرمایا یھیں پر قربانی کے جانوروں کو ذبح کردو اور میرے سر کے بالوں کو مونڈوا لیجئے۔
آپ جب سر کے بال منڈوا چکے تو دوسروں نے بھی ایسا ھی کیا، لیکن سخت پریشانی کے ساتھ ۔ اس طرح کا عمل اس بات کی علامت تھا کہ اب یہ سب حالت احرام سے نکل چکے ھیں۔ حضرت عمر سخت ناراض ھوئے اور حضرت ابو بکر سے کھا کہ جو کچھ ھوا ھے اچھا نھیں ھوا ۔ کیا ھم مسلمان نھیں ھیں کیا یہ مشرک نھیں ھیں؟ یہ سب کچھ کیوں ھوا ھے؟ حضور پاک نے اس سے قبل خواب میں دیکھا تھا کہ مسلمان مکہ میں داخل ھو کر مکہ کو فتح کریں گے ۔ یہ دونوں بزرگ رسول اکرم (ص) کی خدمت میں حاضر ھوئے اور عرض کی کیا آپ (ص) نے خواب میں نھیں دیکھا تھا کہ ھم مسلمان مکہ میں داخل ھوئے ھیں؟ فرمایا ھاں ایسا ھی تھا عرض کی پس اس خواب کی تعبیر اس طرح کیوں ظاھر ھوئی ھے ۔
آپ (ص) نے فرمایا میں نے خواب میں یہ نہین دیکھا کہ ھم امسال مکہ جائیں گے اور نہ ھی میں نے آپ سے اسی سال کی بات کی ھے میں نے خواب دیکھا ھے اور وہ خواب بھی سچا ھے کہ ھم مکہ ضرور جائیں گے ان دونوں بزرگوں نے عرض کی حضور یہ کوئی قرار داد تو نہ ھوئی کہ وہ لوگ ھمارے آدمی کو ساتھ لے جا سکتے ھیں اور ھم قریش میں سے کسی کو اپنے ساتھ نھیں ملا سکتے؟ آپ نے فرمایا اگر ایک شخص ھم میں سے وھاں جانا چاھتا ھے وہ مسلمان نھیں مرتد ھے ۔اس کی ھمیں قطعی طور پر ضرورت نھیں ھے جو مرتد ھوگیا وہ ھمارے کسی کام کا نہ رھا۔ اگر ان میں سے کوئی مسلمان ھوکر ھمارے پاس آجائے تو ھم اس سے کھیں کہ فی الحال تم مکہ جاؤ اور جس طرح بھی نبھ آئے گزار و اللہ تعالی ایک نہ ایک دن ضرور کوئی وسیلہ پیدا کرے گا۔ واقعتاً عجیب و غریب شرائط ھیں ۔ سھیل بن عمر کا ایک بیٹا مسلمان تھا اور وہ اسی لشکر اسلام میں تھا اس نے بھی اس قرارداد پر دستخط کیے اس کا دوسرا بیٹا قریش کے پاس تھا، وہ دوڑتا ھوا مسلمانوں کے پاس آیا۔ لیکن سھیل نے کھا کہ چونکہ اب ایگریمنٹ ھو چکا ھے اس لئے میں اس کو قریش کے پاس واپس بھیجتا ھوں اس نوجوان کا نام ابو جندل تھا۔
آپ (ص) نے اس سے فرمایا تم واپس چلے جاؤ اللہ تعالی کوئی بھتر سبب بنائے گا۔ فکر نہ کرو یہ بیچارہ سخت پریشان ھوا اور چیختا چلاتا رھا، کہ مسلمان مجھے کافروں کے درمیان بے یار ومددگار چھوڑ کر چلے گئے ھیں۔ مسلمان بھی پریشان ھوئے عرض کی یا رسول اللہ (ص) آپ اجازت دیں کہ ھم اس ایک نوجوان کو واپس نہ جانے دیں۔ آپ نے فرمایا کوئی بات نھیں اسے واپس جانے دو اب یہ نوجوان قرارداد کے مطابق آزادانہ طور پر زندگی بسر کرے گا ۔ ان تمام نوجوانوں کو چاھیے کہ وہ مکہ میں رہ کر اسلام کی تبلیغ کریں۔ ایک سال کی کم مدت میں اتنے زیادہ مسلمان ھوئے کہ شاید اتنے بیس سالوں کی مدت میں نہ ھوتے۔ آھستہ آھستہ حالات بدلتے گئے ایک وقت ایسا بھی آیا کہ مکہ شھر مسلمانوں سے چھلک رھا تھا اور اس میں اسلام و قرآن کی باتیں ھو رھی تھیں، علم و عمل کے تزکرے ھورھے تھے۔ ایک بہت اچھا واقع ھے میں چاھوں گا کہ آپ کو بھی سناؤں۔ ابو بصیر نامی ایک شخص مسلمان تھا۔ یہ مکہ میں رھائش پزیر تھا۔ اور بہت ھی بھادر و شجاع تھا۔ یہ مکہ سے فرار ھو کر مدینہ آیا۔ قریش نے دو آدمیوں کو مدینہ بھیجا تاکہ قراردادوں کے مطابق اس کو مکہ لے آئیں، یہ دو شخص آئے اور کھا کہ ابو بصیر کو واپس لوٹا دیجئے۔ حضرت نے فرمایا واقعی ایسا ھی ھے۔
اس نوجوان نے جتنا بھی کھا کہ یارسول اللہ مجھے واپس نہ بھیجئے حضرت نے فرمایا کہ چونکہ ھم ان سے وعدہ کرچکے ھیں جھوٹ بولنا ھمارا شیوہ نھیں ھے۔ تم جاؤ انشاء اللہ حالات بہت جلد بھتر ھو جائیں گے۔ اس کو وہ اپنی حراست میں لے گئے۔ یہ غیر مسلح تھا اور وہ مسلح تھے۔ ذوالحلیفہ نامی جگہ پر پھنچ گئے، تقریباً یھیں سے یعنی مسجد شجرہ سے احرام باندھا جاتا ھے اور مدینہ یھاں سے سات کلو میٹر دور تھا۔ یہ لوگ ایک درخت کے نیچے آرام کرنے لگے۔ ایک شخص کے ھاتھ میں تلوار تھی، ابو بصیر نے اس سے کھا کہ یہ تلوار تو بہت خوبصورت ھے، ذرا مجھے دکھائیے تو سہی، اس نے اس سے تلوار لی اور ایک ھی وار میں اس کا کام تمام کردیا۔ اس مقتول کا دوسرا ساتھی دوڑ کر مدینہ آگیا اور پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا یہ کوئی نیا واقعہ ھوا ھے۔ اس نے عرض کی جی ھاں آپ کے آدمی نے ھمارے آدمی کو قتل کردیا ھے۔ کچھ لمحوں کے بعد ابو بصیر بھی وھاں پھنچ گیا عرض کی یا رسول اللہ آپ نے تو قرار داد پر عمل کر دیا۔ وہ قرار داد یہ تھی کہ اگر کوئی شخص قریش سے فرار ھو کر آجائے تو آپ اس کو ان کے حوالے کردیں میں تو خود آیا ھوں اس لئے آپ مجھے کچھ نہ کھیے آپ اسی وقت اپنی جگہ سے اٹھ کھڑے ھوئے اور دریائے احمر کے کنارے پر آئے آپ نے وھاں پر ایک لکیر کھینچی اور اس کو مرکز قرار دیا جو مسلمان مکہ میں مشرکین کی طرف سے تکالیف برداشت کر رھے تھے ان کو پتہ چلا کہ پیغمبر اکرم (ص) کسی کو اجازت نھیں دے رھے تھے لیکن آپ نے ساحل دریا کو مرکز قرار دیا ھے، وہ ایک ایک کرکے اس جگہ پر پھنچے اور ستر (۷۰) کے لگ بھگ اکٹھے ھو گئے۔ اور ایک "طاقت" بن گئے۔
قریش اب آمد و رفت نہ رکھ سکتے تھے، انھوں نے خود ھی پیغمبر اکرم (ص) کی خدمت میں ایک خط لکھا، جس میں کھا کہ یا رسول اللہ (ص) ھم نے ان کو معاف کردیا ھے ھم درخواست کرتے ھیں کہ آپ ان کو لکھیں کہ یہ لوگ مدینہ آجائیں اور ھمارے لئے رکاوٹیں کھڑی نہ کریں، ھم خود ھی اپنی قرارداد سے صرف نظر کرتے ھیں۔ اس قرارداد کی سب سے بڑی خصوصیت یہ تھی کہ لوگوں کے افکار ونظریات میں تبدیلی لائی جائے۔ چنانچہ یھی ھوا جو ھمارے پیغمبر اکرم (ص) چاھتے تھے۔ اس کے بعد مسلمان مکہ میں آزادانہ طور پر رھنے لگے، اور اس آزادی کی بدولت لوگ فوج در فوج دائرہ اسلام میں داخل ھونے لگے، مشرکین کی تمام تر پابندیاں ختم ھو کر آزادی میں بدل گئیں۔ یہ تھی پیغمبر اکرم (ص) کی مدبرانہ سیاست اور اس سے جو دورس نتائج بر آمد ھوئے۔ ان فوائد کو تو شمار ھی نھیں کیا جاسکتا۔ اب آتے ھیں امام حسن (ع) اور امام حسین (ع) کی معصومانہ حکمت عملیوں کی طرف۔ ھم دیکھتے ھیں کہ اگر امام حسن (ع) امام حسین (ع) کی جگہ پر ھوتے تو آپ کربلا میں ویسا ھی کرتے جیسا کہ امام حسین (ع) نے کیا تھا۔ میں یھاں پر صرف ایک نکتہ عرض کرنا چاھتا ھوں وہ یہ کہ اگر کوئی سوال کرتا ھے کہ کیا اسلام صلح کا دین ھے یا جنگ کا دین؟تو ھم اس کو اس طرح جواب دیں گے کہ آیئے قرآن کی طرف رجوع کرتے ھیں دیکھتے ھیں قرآن مجید ھمیں جنگ کا حکم بھی دیتا ھے اور صلح کا بھی۔ ھمارے پاس بہت سی ایسی آیات موجود ھیں جو ھمیں کافروں ومشرکوں کے ساتھ مسلمانوں کی جنگ کی نشاندھی کرتی ھیں۔ ارشاد الھٰی ھے:
"وقاتلوا فی سبیل الله الذین یقاتلونکم ولا تعتدوا" 18
"اور جو لوگ تم سے لڑیں تم (بھی) خدا کی راہ میں ان سے لڑو اور زیادتی نہ کرو"
دوسری آیات بھی اس طرح کی ھیں۔ صلح کے بارے میں قرآن مجید کھتا ھے:
"وان جنحوا للسلم ما جنح بها" 19
اور اگر یہ کفار صلح کی طرف مائل ھوں تو تم بھی اس کی طرف مائل ھوجاؤ"۔
ایک اور جگہ پر ارشاد خدا وندی ھے:
"والصلح خیر"20
"صلح تو (بھر حال) بھتر ھے۔"
آپ خود ھی اندازہ کر لیجئے کہ اسلام کس چیز کا مذھب ھے؟ اسلام نہ صرف صلح کو قبول کرتا ھے بلکہ اس کے لئے بھی وہ شرائط عائد کرتا ھے اور نہ بغیر کسی وجہ کے جنگ کو روا سمجھتا ھے ۔ وہ کھتا ھے صلح اور جنگ چند خاص شرائط کے ساتھ قیام پذیر ھوں گی ۔ مسلمان خواہ حضرت پیغمبر (ص) کے دور کا ھو یا حضرت امیر (ع) کے زمانے کا یا حضرت امام حسن (ع)، امام حسین (ع) اور دیگر آئمہ طاھرین علیھم السلام کے دور امامت سے تعلق رکھتا ھے وہ ھر جگہ پر ایک ھدف اور مقصد کے تحت زندگی گزراتا ھے ۔
اس کا ھدف اصلی اسلام اور مسلمانوں کے حقوق کا تحفظ اور بازیابی ھے۔ اس کو دیکھنا چاھیے کہ یہ مقاصد صلح کے ساتھ حاصل ھوتے ھیں تو صلح کی زندگی گزاردے ۔ اگر کسی موقع پر اسلامی، دینی مقاصد کا تحفظ جنگ میں ھے تو اسلام کھتا ھے کہ کافروں، مشرکوں اور ظالموں کے خلاف ڈٹ جاؤ ۔ حقیقت میں یہ مسئلہ جنگ یا صلح کا نھیں ھے بلکہ بات حالات اور شرائط کی ھے جھاں جھاں اسلامی اہداف کا تحفظ ھو وھاں صلح یا جنگ کریں جیسی مناسبت ویسا اقدام ۔ بس ھر موقعہ پر اللہ تعالی کی خوشنودی اور رضا ملحوظ خاطر رھے یعنی یہ اسلام کا بنیادی فلسفہ ھے ۔

 

ایک سوال اور ایک جواب

سوال: آپ نے فقہ جعفریہ کی سند امام حسن علیہ السلام کے بارے میں بیان کی ھے درست نھیں ھے، کیونکہ شیعہ فقہ ائمہ طاھرین علیھم السلام کی تعلیمات کے نتیجے میں وجود میں آئی ھے ۔ اب آپ یہ نھیں کھہ سکتے کہ حضرت امام حسن علیہ السلام نے شیعہ فقہ پر عمل کرتے ھوئے صلح کی ھے؟ جناب محقق اور دیگر علمائے شیعہ نے جو کچھ بھی کھا ھے یا بیان کیا ھے یہ سب کچھ ائمہ اطھار (ع) سے لیا ھے ۔ براہ کرم اس مسئلہ کی تشریح فرما دیجئے ۔
جواب:آپ نے بہت اچھا سوال کیا ھے آپ نے میری بات پر غور نھیں کیا میں نے کب کھا کہ امام حسن علیہ السلام نے شیعہ فقہ کی پیروی کرتے ھوئے حاکم وقت کے ساتھ صلح کی ھے ۔ میں نے تو فقہ کے بنیادی اصولوں کو سیرت امام (ع) سے منطبق کرنے کی کوشش کی ھے ۔ دراصل ھماری فقہ ائمہ طاھرین علیھم السلام کے فرامین سے مرتب کی گئی۔ شریعت اسلامیہ کی تشریح اور وضاحت ان بزرگ ھستیوں نے جس طرح کی ھے اتنی اور کسی نے نھیں کی ۔ ھم نے فقہ کے ایک باب جھاد پر تبصرہ کیا تھا ۔ جناب محقق کی عالمانہ رائے اور نقطہ نظر کو اس لئے بیان کیا تاکہ واضح ھوجائے کہ صلح کے بارے میں شیعہ فقہ کیا کھتی ھے؟بالغرض اگر آج ھمیں یا کسی اسلامی حکمران کو اس قسم کا قدم اٹھانا پڑے اور وہ ھم سے رائے مانگے تو ھم بغیر کسی توقف کے بتاسکیں کہ ھماری فقہ کیا کھتی ھے؟اور ھمارے ائمہ طاھرین علیھم السلام کی سیرت طیبہ ھمیں کیا درس دیتی ھے؟
یہ ضروری نھیں ھے کہ انسان ھر وقت لوگوں سے لڑتا جھگڑتا رھے اور وہ اس کو جھاد کا نام دے ۔ بلکہ جھاد اور صلح کے اپنے اپنے تقاضے ھیں اور ان کو ھم نے وضاحت کے ساتھ بیان کردیا ھے ۔ اوقات صبر و تحمل اور خاموشی کی روش اختیار کرنی پڑتی ھے ۔ کبھی کبھی ایسا ھی ھوتا ھے کہ جارح اور ظالم دشمن کے جواب میں مسلح ھو کر میدان جنگ میں اترنا پڑتا ھے ۔ پیغمبر اسلام (ص) اور دیگر ائمہ کی سیرت کا مطالعہ کیا جائے تو ان میں اس نوع کی یکسانیت و یگرنگی ھے کہ انسان اس میں کسی قسم کی تفریق نھیں کرسکتا ۔


سوال:کیا اھل سنت بھائیوں کا نقطہ نظر جھاد کے بارے میں شیعوں سے مختلف ھے اگر ھے تو کیا ھے؟
جواب:مجھے اس سلسلے میں اھل سنت بھائیوں کی کتب کا مطالعہ کرنا پڑے گا اس کے بعد کچھ اس پر روشنی ڈال سکوں گا لیکن جھاں تک مجھے معلوم ھے وہ یہ ھے کہ جھاد کے بارے میں شیعہ سنی کا کوئی اتنا بڑا فرق نھیں ھے ھم یہ کھتے ھیں کہ جھاد میں امام یا اس کے نائب سے اجازت لینا چاھیے ان کے نزدیک یہ شرط وقید نھیں ھے ۔ اس مسئلہ میں ھم سب مسلمان متحد ھیں کہ اگر کافر یا مشرک ملک یا شخص ھمارے خلاف جارحیت کا ارتکاب کرتا ھے یا کسی کافر سے کسی مسلمان کی عزت و مال کو خطرہ ھے تو ھم سب پر واجب ھے کہ ھم اس کی جارحیت کا منہ توڑ جواب دیں ۔

12.سورہ حج، ۳۹.
13.الاحتجاج طبرسی، ج۱، ص۱۰۷.
14.تاریخ طبری، ج۳، ص۲۹۴۴.
15.نھج البلاغہ،۷۲.
16.مسالک الافھام، ج۳، ص۱۱۴.
17.سوره حجرات، ۹.
18.بقرہ، ۱۹۰.
19.انفال، ۴۱.
20.نساء، ۱۲۸

 

آپ کا تبصرہ شامل کریں

قارئین کے تبصرے

کوئی تبصرہ موجودنہیں ہے
*
*

امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک