ماہ شعبان کی فضیلت واعمال (حصہ سوم)
- شائع
-
- مؤلف:
- شیخ عباس قمی(رح)
- ذرائع:
- ماخوذ ازکتاب مفاتیح الجنان و باقیات الصالحات (اردو)
ماہ شعبان کے مخصوص اعمال
فضیلت روز اول شعبان
پہلی شعبان کی رات کتاب اقبال میں شعبان کی پہلی رات میں پڑھی جانے والی کافی نمازوں کا ذکر ہوا ہے، ان میں سے ایک بارہ رکعت نماز ہے کہ جس کی ہر رکعت میں سورہ حمد کے بعد گیارہ مرتبہ سورہ توحید پڑھی جاتی ہے۔
پہلی شعبان کا دن
ماہ شعبان کے پہلے دن کا روزہ رکھنے کی بڑی فضیلت ہے۔ اور امام جعفر صادق -سے روایت ہوئی ہے کہ یکم شعبان کا روزہ رکھنے والے کے لیے جنت واجب ہوجاتی ہے ۔ سید ابن طاؤس نے رسول اللہ سے نقل کیا ہے کہ شعبان کے پہلے تین دن کا روزہ رکھنے اور پہلی تین راتوں میں دو، دو رکعت نماز پڑھنے کاثواب بہت زیادہ ہے، اس نماز کی ہر رکعت میں سورہ حمد کے بعد گیارہ مرتبہ سورہ توحید پڑھے:
واضح رہے کہ ماہ شعبان اور اسکے پہلے دن کے روزے کی فضیلت تفسیر امام -میں مذکور ہے۔ ہمارے استاد ثقۃ الاسلام نوری (رح) نے کتاب کلمہ طیبہ کے آخر میں ایک روایت نقل کی
ہے۔ جس میں ا سکے بہت سے فوائد و برکات کا ذکر ہے، یہ روایت بڑی طویل ہے۔ ہم یہاں ا سکا خلاصہ نقل کررہے ہیں:
خلاصہ روایت
یکم شعبان کو چند افراد مسجد میں بیٹھے قضا و قدر کے مسئلہ پر بحث و تکرار کرتے ہوئے بلند آواز سے بول رہے تھے۔ امیرالمومنین -نے ان لوگوں کو سلام کیا، جب انہوں نے آپ سے وہاںتشریف رکھنے کی خواہش کی تو آپ نے فرمایا : تم لوگ ایسی باتیں کر رہے ہو، جن میںکوئی فائدہ نہیں آیا تم نہیں جانتے کہ خدا کے ایسے بندے بھی ہیں جو صرف خوف خدا سے خاموشی اختیار کرلیتے ہیں لیکن وہ بولنے سے قاصر نہیں ہوتے۔ بات یہ ہے کہ جب ان کے دلوں میں عظمت خداوندی کا تصور آتا ہے۔ تو ان کی زبانیں گنگ اور ان کی عقلیں حیران ہوجاتی ہیں پھر جب وہ اپنی حالت میں آتے ہیں تو خود کو بارگاہ الٰہی میںگنہگار و خطاکار سمجھتے ہوئے آہیں بھرتے ہیںجبکہ وہ گناہوں سے مبرأ ہوتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ اپنے عمل کو کم تر سمجھتے ہیں اور ان کا خیال یہ ہوتا ہے کہ ہم میں تقصیر اور کوتاہی ہے۔ پس وہ ہر وقت عمل خیر میں مشغول رہتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں کہ اگر ان کی طرف نظر کی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ حالت خوف میں عبادت میں کھڑے ہیں اور ان کا اضطراب ظاہر ہے۔ ان لوگوں کے مقابلے میں تم کہاں ہو؟ کیا تم نہیں جانتے کہ سب سے بڑا دانا وہ ہے جو زیادہ خاموش رہے اور سب سے بڑا جاہل وہ ہے جو بہت زیادہ باتیں کرتا ہو۔ اے نادان و کم سمجھ لوگو! آج یکم شعبان ہے اور خدائے تعالیٰ نے اس کا نام شعبان اس لیے رکھا ہے کہ اس میں نیکیاں عام کردی جاتی ہیں، حسنات کے دروازے کھل جاتے ہیں اورجنت کے محلات ارزاں قیمت اورآسان تر اعمال سے حاصل ہوتے ہیں۔ پس عبادت کرکے انہیں خریدلو۔ شیطان، ابلیس نے برائیوں کو تمہارے لیے پسندیدہ بنادیا ہے، تم گمراہی نافرمانی اور سرکشی میں پڑے ہو، شیاطین کی بدیوں اور برائیوں کی طرف متوجہ ہو اور شعبان کی خوبیوں اور اچھائیوں سے منہ نہ موڑو۔ جب کہ خدا کی طرف سے حسنات و خیرات کا دروازہ کھلا ہوا ہے۔
آج یکم شعبان ہے اور اس کی حسنا ت و خیرات میں نماز، روزہ، امر بہ معروف و نہی از منکر، والدین، ہمسایہ اور اقربا سے حسن سلوک، آپس کے اختلافات دور کرنا اور فقرائ و مساکین کے لیے صدقہ و خیرات کرنا ہے۔ ادھر تم ہو کہ قضا و قدر کی بحث میں الجھے ہوئے ہو۔ کہ جس کا تمہیںحکم نہیں دیا گیا، جن باتوں سے تمہیں منع کیا گیا ہے تم ان میں مشغول ہو۔ خبر دار رہو کہ جو راز الٰہی کے کھولنے میں کوشاں ہوگا وہ برباد ہوجائے گا۔ آج کے دن اطاعت کرنے والوں کے لیے خدا نے جو کچھ مہیا فرمایا ہے اگر تمہیں اس کا علم ہوجائے تو یقینا تم ان بے کار بحثوں کو چھوڑکر احکام خد اکی طرف متوجہ ہوجاؤگے۔
ان سب نے عرض کی کہ یا امیرالمومنین-! خدا تعالیٰ نے اطاعت گذاروں کے لیے کیا کچھ مہیا فرمایا ہے؟ تب حضرت نے ایک لشکر کا قصہ اس طرح نقل فرمایا:
رسول اکرم نے کفار سے جنگ کے لیے ایک لشکربھیجا تو کافروں نے اس پر شب خون مارا۔ جب کہ وہ ایک تاریک ترین رات تھی اور سبھی مسلمان پڑے سورہے تھے ۔ اس لشکر میںسے صرف چار افراد جاگ رہے تھے کہ ان میں سے ہر ایک اپنے لشکر کے ایک کونے پر تلاوت، ذکر اور نماز میں مشغول تھا۔ یہ چار افراد زید بن حارثہ، عبداللہ بن رواحہ، قتادہ بن نعمان اور قیس بن عاصم منقری تھے۔ جب دشمن نے مسلمانوں پر سوتے میں حملہ کردیا تو قریب تھا کہ سب کے سب مارے جائیں۔ لیکن اچانک ان چار اشخاص کے چہروں سے نور کی کرنیں پھوٹ نکلیں کہ سارا میدان روشن ہوگیا۔ اس روشنی میں مسلمان سنبھلے اور دیکھ بھال کر دشمن کا مقابلہ کرنے لگے۔ اور اس نور کو دیکھ کر ان کے حوصلے اور بھی بڑھتے جاتے تھے۔ پس انہوں نے دشمنوں کو تلواروں سے زیر کرلیا۔
یہاں تک کہ بہت سے مارے گئے اور بہت سے زخمی و اسیر ہوگئے۔ جب یہ فاتح لشکر واپس آیا تو یہ ماجرا رسول اللہ کی خدمت میں عرض کیا گیا، آپ نے فرمایا کہ یہ نور تمہارے ان بھائیوں کے ان اعمال کی برکت سے ظاہر ہوا جو اس رات ﴿یکم شعبان کے سلسلہ میں﴾ انجام دے رہے تھے۔ ہاں یہ یکم شعبان کے اعمال ہی ہیںکہ جن کے باعث تمہیں فتح حاصل ہوئی اورتم لوگ دشمن کے اچانک حملے میں اس کا مقابلہ کرنے میں کامیاب رہے ہو۔
پھر آنحضرت(ص) نے ایک ایک کرکے یکم شعبان کے اعمال کا ذکر فرماتے ہوئے کہا: جب یکم شعبان کا دن آتا ہے تو شیطان اپنے گماشتوں سے کہتا ہے کہ ہر طرف پھیل جاؤ، لوگوں کو اپنی طرف بلاؤ اور انہیں خدا سے دور کرو۔ جب کہ خدائے رحمان اپنے ملائکہ سے فرماتا ہے کہ آج یکم شعبان ہے، تم ہر طرف پھیل جاؤ اور میرے بندوں کو میری طرف بلاؤ، انہیں نیکی کی طرف راغب کرو تاکہ وہ سب با سعادت اور نیک بخت بن جائیںالبتہ ان میں سے سرکش اور نافرمان لوگ شیطان کے گروہ میں ہی رہیں گے۔
آنحضرت نے فرمایا کہ جب یکم شعبان ہوتی ہے تو بہشت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں، شجر طوبیٰ کو حکم ہوتا ہے کہ اپنی شاخیں پھیلائے اور انہیں زمین کے قریب کرے، خدا کا ایک منادی یہ ندا دیتا ہے کہ اے خدا کے بندو اور اے نیکوکار لوگو! طوبیٰ کی ان شاخوں سے لپٹ جاؤ کہ وہ تمہیں اٹھاکے جنت میں لے جائیں۔ جب کہ بدکاروں کی لیے تھوہر کا درخت ہے اور ڈرتے رہو کہ کہیں اس کی شاخیں تمہیں جہنم میں نہ لے جائیں۔
رسول اللہ نے یہ بھی فرمایا:اس ذات کی قسم جس نے مجھ کو حق کے ساتھ رسالت پر مبعوث فرمایا کہ جو یکم شعبان کے دن نیکی کرے تو وہ طوبیٰ کی شاخ سے لپٹ گیا اور وہ اسے جنت میں لے جائے گی۔ پھر فرمایا جو آج کے دن نماز پڑھے یا روزہ رکھے تو وہ بھی شاخ طوبیٰ سے لپٹ گیا۔ اسی طرح جوشخص آج کے دن باپ بیٹے میں صلح کرائے۔ میاں بیوی میں سمجھوتہ کرائے، رشتہ داروں میں راضی نامہ کرائے یا اپنے ہمسائے یا کسی اجنبی میں مصالحت کرائے تو وہ بھی شاخ طوبیٰ سے لپٹ گیا۔ جو مقروض کی پریشانی کم کرے یا طلب میں تخفیف کرے تو وہ شاخ طوبیٰ سے لپٹ گیا۔ جو شخص آج کے دن اپنے حساب پر نظر کرے اور دیکھے کہ ایک پرانا قرضہ ہے جسے مقروض ادا نہیں کرسکتا۔ پس وہ اس قرضے کو حساب سے کاٹ دے تو وہ طوبیٰ کی شاخ سے لپٹ گیا۔ جو کسی یتیم کی کفالت کرے، کسی جاہل کومؤمن کی ہتک کرنے سے باز کرے تو وہ بھی شاخ طوبیٰ سے لپٹ گیا۔ جو قرآن کی تلاوت کرے، مریض کی عیادت کرے، خداکا ذکر کرے اور خدا کی نعمتوں کا نام لے لے کر اس کا شکر ادا کرے تو وہ بھی طوبیٰ کی شاخ سے لپٹ گیا۔ جوشخص آج کے دن اپنے ماں یا باپ یا دونوں میںسے ایک کے ساتھ اچھا سلوک کرے تو وہ بھی طوبیٰ کی شاخ سے لپٹا، جو اس سے پہلے کسی کو غضب ناک کرچکا ہو اور آج اسے راضی اور خوش کردے تو وہ بھی شاخ طوبیٰ سے لپٹا جو شخص جنازے کے ساتھ چلے تو وہ بھی طوبیٰ کی شاخ سے لپٹ گیا۔ جو کسی مصیبت زدہ کی بھی دلجوئی کرے وہ شاخ طوبیٰ سے لپٹا اور جو شخص آج کے دن کوئی بھی نیک کام کرے تو وہ شاخ طوبیٰ سے لپٹ گیا۔
اس کے بعد رسول اکرم نے فرمایا: مجھے اس ذات کی قسم جس نے مجھ کورسالت پر مامور کیا ہے کہ جو شخص آج کے دن شر و بدی کا کوئی بھی کام کرے تو وہ زقوم﴿تھوہر﴾ کی شاخوں سے لپٹ گیا اوروہ اسے جہنم کی طرف کھینچ لے جائیں گیں پھر فرمایا کہ قسم ہے مجھ کو اس ہستی کی جس نے مجھے پیغمبر (ص)قرار دیا کہ جو شخص بھی آج کے دن واجب نماز میں کوتاہی کرتے ہوئے اسے ضائع کرے تو وہ بھی شجر زقوم کی شاخوں سے لپٹ گیا۔ جس کے پاس کوئی فقیر و ناتواں آئے کہ جس کی حالت کو یہ جانتا ہے اور اس کی حالت کو بدل بھی سکتا ہے۔ کہ خود اس کو کچھ ضرر نہیں پہنچتا۔ نیز اس غریب کی مدد کرنے والا کوئی دوسرا شخص بھی نہ ہو پس اگر وہ اس درماندہ کو اس حالت میںچھوڑدے اور وہ ہلاک ہوجائے تو یہ مدد نہ کرنے والازقوم کی شاخوں سے لپٹ گیا۔ جس کے سامنے کوئی برے کام والا آدمی معذرت کرے اور پھر بھی وہ اس کو اس کی برائی کی سزا سے کچھ زیادہ سزا دے تو یہ بھی زقوم کی شاخوں سے لپٹا۔ جو شخص آج کے دن میاں بیوی یا باپ بیٹے یا بھائی بھائی یا بھائی بہن یا کسی قریبی رشتہ داریا ہمسائے یا دو دوستوں میں جدائی اور غلط فہمی پیدا کرے تو وہ بھی زقوم کی شاخوں سے لپٹ گیا۔
جو شخص کسی تنگ دست پر سختی کرے کہ جس کی حالت کو جانتاہے اور اس کی مصیبت میںاپنے غصے کا اضافہ کرے تو وہ زقوم کی شاخوں سے لپٹا۔ جس پر کسی کا قرض ہو اور یہ اس کا انکار کردے اور اپنی عیاری سے اس قرض کو باطل قرار دے تو یہ بھی زقوم کی شاخوں سے لپٹ گیا۔جو شخص کسی یتیم کو اذیت دے۔ اس پر ستم توڑے اور اس کے مال و متاع کو ضائع کردے تو وہ بھی زقوم کی شاخوں سے لپٹ گیا اور جو شخص کسی مومن کی عزت کو خراب کرے اور دوسروں کو ایسا کرنے کے لیے شہ دے تو وہ بھی اس درخت کی شاخوں سے لپٹا۔ جو شخص اس طرح گانا گائے کہ لوگ اس کے گانوں سے گناہوں میں مبتلا ہوں تو وہ زقوم کی شاخوںسے لپٹا اور جوشخص زمانہ جنگ میں کیے ہوئے اپنے برے کاموں اور اپنے ظلم و ستم کے دوسرے واقعات لوگوں میں بیٹھ کر فخرسے سنائے تو وہ بھی زقوم کی شاخوں سے لپٹا۔
جو شخص اپنے بیمار ہمسائے کو کم تر تصور کرتے ہوئے اس کی عیادت نہ کرے تو وہ زقوم کی شاخوںسے لپٹ گیا۔ اور جو شخص اپنے مردہ ہمسائے کو ذلیل سمجھتے ہوئے اس کے جنازے کے ساتھ نہ جائے تو وہ بھی اس درخت کی شاخوں سے لپٹا۔ جو شخص کسی ستم رسیدہ سے بے رخی برتے اوراسے پست خیال کرتے ہوئے اس پر سختی کرے تو وہ زقوم کی شاخوں سے لپٹا اور جو شخص اپنے ماںباپ یا دونوں میں سے کسی ایک کا نافرمان ہوجائے تو وہ بھی اس درخت کی شاخوں سے لپٹ گیا۔ جو شخص آج کے دن سے قبل اپنے ماں باپ کا نافرمان ہو اور آج کے دن ان کو راضی و خوش نہ کرے تو وہ بھی زقوم کی شاخوں سے لپٹ گیا۔ نیز جو بھی شخص ان برائیوں کے علاوہ کسی اور بدی و گناہ کا ارتکاب کرے تو وہ بھی درخت زقوم کی شاخوں سے لپٹ گیا۔
آنحضرت(ص) نے مزید فرمایا: قسم ہے مجھے اس ذات کی جس نے مجھ کو نبی(ص) و پیغمبر (ص)بنایا کہ جو لوگ درخت طوبیٰ کی شاخوں سے لپٹے ہوئے ہونگے وہ انہیں اٹھاکر جنت میں لے جائینگے۔ اس کے بعد رسول اﷲ نے چند لمحوں کیلئے اپنی نگاہ آسمان کیطرف بلند کی تو آپ خوش ہوئے اور ہنسے پھر اپنی نگاہ زمین پر ڈالی اور آپ(ص) کا چہرہ مبارک کچھ ترش ہؤا۔ تب اپنے اصحاب کی سمت دیکھتے ہوئے فرمایا مجھ کو قسم ہے ا س ہستی کی جس نے مجھے پیغمبر(ص) قرار دیا کہ میں نے شجر طوبیٰ کو بلند ہوتے اور اپنے سے لپٹے ہوئے لوگوں کو جنت کیطرف لے جاتے دیکھا ہے۔ بقدر اپنی اطاعت و نیکوکاری کے کہ اسکی ایک شاخ یا کئی کئی شاخوں سے لپٹے ہوئے تھے میں نے دیکھا کہ زید بن حارثہ اسکی کئی شاخوں سے لپٹے ہوئے ہیں اور وہ انکو جنت کے مقام اعلیٰ علیین کیطرف بلند کرتی جارہی ہیں یہ دیکھ کر میں خوش ہؤا اور ہنسا۔پھر میں نے زمین پر نظر ڈالی تو قسم ہے اس ہستی کی جس نے مجھ کونبی(ص) بنایا۔ کہ میں نے درخت زقوم کو دیکھا کہ اس کی شاخیں نیچے کو جارہی ہیں اور جو لوگ اپنی برائیوں کے مطابق اس کی ایک یا کئی شاخوں سے لپٹے ہوئے ہیں وہ ان کو جہنم کے سب سے نچلے طبقے کی طرف لے جارہی ہیں۔ اس سے میرے چہرے پر بیزاری کے آثار ظاہر ہوئے تھے۔اور اس کے ساتھ کئی منافق لپٹے ہوئے تھے۔
تیسری شعبان کا دن
یہ بڑا با برکت دن ہے شیخ نے مصباح میں فرمایا ہے کہ اس روز امام حسین- کی ولادت ہوئی نیز امام عسکری -کے وکیل قاسم بن علا ہمدانی کیطرف سے فرمان جاری ہؤا کہ بروز جمعرات ۳ /شعبان کو امام حسین -کی ولادت باسعادت ہوئی ہے۔ پس اس دن کا روزہ رکھو اور اس روز یہ دعا پڑھو:
اَللّٰهمَّ إنِّی ٲَسْٲَ لُکَ بِحَقِّ الْمَوْلُودِ فِی هذَا الْیَوْمِ الْمَوْعُودِ بِشَهادَتِه قَبْلَ اسْتِهلالِه
اے معبود! بے شک میں تجھ سے سوال کرتا ہوں آج کے دن پیدا ہونیوالے مولود کے واسطے سے کہ جس کے پیدا ہونے اور دنیا میں
وَوِلادَتِه، بَکَتْه السَّمائُ وَمَنْ فِیها، وَالْاَرْضُ وَمَنْ عَلَیْها، وَلَمَّا یَطَٲْ لابَتَیْها
آنے سے پہلے اس سے شہادت کا وعدہ لیا گیا تو اس پر آسمان رویا اور جو کچھ اس میں ہے اور زمین اور جو کچھ اس پر ہے روے جبکہ
قَتِیلِ الْعَبْرَة، وَسَیِّدِ الْاُسْرَة، الْمَمْدُودِ بِالنُّصْرَة یَوْمَ الْکَرَّة، الْمُعَوَّض ِ مِنْ
اس نے زمین مدینہ پر قدم نہ رکھا تھا وہ گریہ والا شہید اور کامیاب و کامران خاندان کا سید و سردار ہے رجعت کے دن، یہ اس کی
قَتْلِه ٲَنَّ الْاَئِمَّة مِنْ نَسْلِه، وَالشِّفائَ فِی تُرْبَتِه، وَالْفَوْزَ مَعَه فِی ٲَوْبَتِه،
شہادت کا بدلہ ہے کہ پاک آئمہ (ع)اس کی اولاد میں سے ہوئے اس کی خاکِ قبر میں شفائ ہے اور اس کی بازگشت میں کامیابی اسی کے
وَالْاَوْصِیائَ مِنْ عِتْرَتِه بَعْدَ قائِمِهمْ وَغَیْبَتِه، حَتّی یُدْرِکُوا الْاَوْتارَ، وَیَثْٲَرُوا الثَّارَ،
لیے ہے اور اوصیائ اسی کی اولاد میں سے ہیں کہ ان میں سے قائم غیبت ختم ہونے کے بعد وہ اپنے خون کا بدلہ اور انتقام لے کر تلافی
وَیُرْضُوا الْجَبَّارَ وَیَکُونُوا خَیْرَ ٲَنْصارٍ صَلَّی اﷲُ عَلَیْهمْ مَعَ اخْتِلافِ اللَّیْلِ وَالنَّهار
کرنے والے خدا کو راضی کریںگے اور بہترین مددگار ثابت ہوںگے درود ہوان سب پر جب تک رات دن آتے جاتے رہیں
اَللّٰهمَّ فَبِحَقِّهمْ إلَیْکَ ٲَ تَوَسَّلُ وَٲَسْٲَلُ سُؤالَ مُقْتَرِفٍ مُعْتَرِفٍ مُسِیئٍ إلی نَفْسِه
اے معبود ان کا حق جو تجھ پر ہے اسے وسیلہ بناتا ہوں اور سوال کرتا ہوں اپنا گناہ تسلیم کرنے والے کیطرح کہ جس نے اپنے نفس
مِمَّا فَرَّطَ فِی یَوْمِه وَٲَمْسِه، یَسْٲَ لُکَ الْعِصْمَة إلی مَحَلِّ رَمْسِہِ۔ اَللّٰهمَّ فَصَلِّ عَلی
سے برائی کی ہے آج کے دن اور گزری ہوئی رات میں تو وہ سوال کرتا ہے اپنی موت کے دن تک کیلئے اے معبود! پس حضرت محمد(ص) اور
مُحَمَّدٍ وَعِتْرَتِه، وَاحْشُرْنا فِی زُمْرَتِه ، وَبَوّئْنا مَعَه دارَ الْکَرامَة، وَمَحَلَّ الْاِقامَة ۔
انکے خاندان پر رحمت فرما اور ہمیں اسکے گروہ میں محشور فرما اور ہمیں بزرگی والے گھر اور جائے قیام کے سلسلے میں انکے ساتھ جگہ دے
اَللّٰهمَّ وَکَما ٲَکْرَمْتَنا بِمَعْرِفَتِه فَٲَکْرِمْنا بِزُلْفَتِه، وَارْزُقْنا مُرافَقَتَه وَسابِقَتَه،
اے معبود! جیسے تو نے ان کی معرفت کے ساتھ ہمیں عزت دی اسی طرح ان کے تقرب سے بھی نوازا اور ہمیں ان کی رہنمائی عطا کر
وَاجْعَلْنا مِمَّنْ یُسَلِّمُ لاََِمْرِه، وَیُکْثِرُ الصَّلاۃَ عَلَیْه عِنْدَ ذِکْرِه، وَعَلی جَمِیعِ
اور انکی ہمراہی نصیب فرما ہمیں ان لوگوں میں قرار دے جو ان کاحکم مانتے اور ان کے ذکر کے وقت ان پر بکثرت درود بھیجتے ہیں نیز
ٲَوْصِیائِه وَٲَهلِ ٲَصْفِیائِه، الْمَمْدُودِینَ مِنْکَ بِالْعَدَدِ الاثْنَی عَشَرَ، النُّجُومِ الزُّهرِ،
ان کے سارے جانشینوں پر اور برگزیدہ اہل خاندان پر جن کی تعداد کو تو نے بارہ تک پورا فرمایا ہے جو چمکتے ہوئے ستارے ہیں
وَالْحُجَجِ عَلی جَمِیعِ الْبَشَرِ ۔ اَللّٰهمَّ وَهبْ لَنا فِی هذَا الْیَوْمِ خَیْرَ مَوْهبَة، وَٲَ نْجِحْ
اور وہ تمام انسانوں پرخدا کی حجتیں ہیںاے معبود! آج کے دن ہمیں بہتریں عطاؤں سے سرفراز فرما اور ہماری سبھی حاجات
لَنا فِیہِ کُلَّ طَلِبَة، کَما وَهبْتَ الْحُسَیْنَ لُِمحَمَّدٍ جَدِّه، وَعاذَ فُطْرُسُ بِمَهدِه، فَنَحْنُ
پوری کر دے جیسے تو نے حسین(ع) کے نانا حضرت محمد(ص) کو خود حسین(ع) عطا فرمائے تھے اور فطرس نے انکے گہوارے کی پناہ لی پس ہم انکے روضہ
عائِذُونَ بِقَبْرِه مِنْ بَعْدِه نَشْهدُ تُرْبَتَه وَنَنْتَظِرُ ٲَوْبَتَه، آمِینَ رَبَّ الْعالَمِینَ ۔
کی پناہ لیتے ہیں انکے بعد اب ہم انکے روضہ کی زیارت کرتے ہیں اور انکی رجعت کے منتظر ہیں ایسا ہی ہو اے جہانوں کے پالنے والے۔
اس کے بعد امام حسین - کی دعا پڑھے کہ جو آپ نے یوم عاشورہ کوپڑھی جب کہ آپ دشمنوں میں گھرے ہوئے تھے اور وہ دعا یہ ہے:
اَللّٰهمَّ ٲَ نْتَ مُتَعالی الْمَکانِ، عَظِیمُ الْجَبَرُوتِ، شَدِیدُ الْمِحالِ، غَنِیٌّ عَنِ الْخَلائِقِ،
اے معبود! تو بلند تر منزلت رکھتا ہے تو بڑے ہی غلبے والا ہے زبردست طاقت والا، مخلوقات سے بے نیاز،
عَرِیضُ الْکِبْرِیائِ قادِرٌ عَلی مَا تَشائُ قَرِیبُ الرَّحْمَة ، صَادِقُ الْوَعْدِ، سَابِغُ النِّعْمَة
بے حد و حساب بڑائی والاہے جو چاہے اس پر قادر، رحمت کرنے میں قریب، وعدے میں سچا، کامل نعمتوں والا،
حَسَنُ الْبَلائِ، قَرِیبٌ إذا دُعِیتَ، مُحِیطٌ بِما خَلَقْتَ، قابِلُ التَّوْبَة لِمَنْ تابَ إلَیْکَ،
بہترین آزمائش کرنے والاہے تو قریب ہے جب پکارا جائے جسکو پیدا کیا تو اسے گھیرے ہوئے ہے تو اسکی توبہ قبول کرتا ہے جو توبہ کرے
قادِرٌ عَلی مَا ٲَرَدْتَ ، وَمُدْرِکٌ مَا طَلَبْتَ، وَشَکُورٌ إذا شُکِرْتَ، وَذَ کُورٌ إذا ذُکِرْتَ،
تو جو ارادہ کرے اس پر قادر ہے جسے تو طلب کرے اسے پالینے والا ہے اور جب تیرا شکر کیا جائے تو قدر کرتا ہے تجھے یاد کیا جائے
ٲَدْعُوکَ مُحْتاجاً، وَٲَرْغَبُ إلَیْکَ فَقِیراً، وَٲَ فْزَعُ إلَیْکَ خائِفاً، وَٲَبْکِی إلَیْکَ
تو بھی یاد کرتا ہے میں حاجتمندی میں تجھے پکارتا اور مفلسی میں تیری رغبت کرتا ہوں تیرے خوف سے گھبراتا ہوں مصیبت میں تیرے
مَکْرُوباً، وَٲَسْتَعِینُ بِکَ ضَعِیفاً، وَٲَ تَوَکَّلُ عَلَیْکَ کافِیاً، احْکُمْ بَیْنَنا وَبَیْنَ قَوْمِنا
آگے روتا ہوں کمزوری کے باعث تجھ سے مدد مانگتا ہوں تجھے کافی جان کر توکل کرتا ہوں فیصلہ کردے ہمارے اور ہماری قوم کے
بِالْحَقِّ، فَ إنَّهمْ غَرُّونا وَخَدَعُونا وَخَذَلُونا وَغَدَرُوا بِنا وَقَتَلُونا، وَنَحْنُ عِتْرَة نَبِیِّکَ
درمیان کہ انہوں نے ہمیں فریب دیا اور ہم سے دھوکہ کیا ہمیں چھوڑدیا اور بے وفائی کی اور ہمیں قتل کیا جبکہ ہم تیرے نبی(ص) کا گھرانہ اور
وَوَلَدُ حَبِیبِکَ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِاﷲِ الَّذِی اصْطَفَیْتَه بِالرِّسالَة وَائْتَمَنْتَه عَلی وَحْیِکَ،
تیرے حبیب محمد(ص) بن عبداللہ کی اولاد ہیں جن کو تو نے تبلیغ رسالت کے لیے چنا اور انہیں اپنی وحی کا امین بنایا
فَاجْعَلْ لَنا مِنْ ٲَمْرِنا فَرَجاً وَمَخْرَجاً بِرَحْمَتِکَ یَا ٲَرْحَمَ الرَّاحِمِینَ ۔
پس اس معاملے میں ہمیں کشادگی اور فراخی دے اپنی رحمت سے اے سب سے زیادہ رحم والے۔
ابن عیاش سے روایت ہے کہ میں نے حسین بن علی بن سفیان کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ امام جعفر صادق -تین شعبان کو مذکورہ دعا پڑھتے اور فرماتے تھے کہ یہ امام حسین کی پاک ولادت کا دن ہے۔
تیرھویں شعبان کی رات
یہ شب ہائے بیض﴿روشن راتوں﴾ میں سے پہلی رات ہے، اس رات اور اس کے بعد کی دونوں راتوں میں پڑھی جانے والی نمازوں کی ترکیب ماہ رجب کے اعمال میں ذکر ہوئی ہے۔ پس ا سکے مطابق یہ نمازیں ادا کی جائیں۔