خیانت
عام فرائض اور باھمی اعتماد
بنیادی طور پرایک مضبوط و سالم معاشرے کے لئے باھمی اعتماد کا ھونا بھت ضروری ھے۔ اسی لئے صر ف اسی معاشرے کو خوشبخت و سعادت مند سمجھنا چاھئے جس کے افراد کے درمیان مکمل رشتھٴ اتحاد و اطمینان پایا جاتا ھو لیکن اگر معاشرے کے افراد اپنے عمومی فرائض کی سر حدوں کو پار کر لیں اور دوسروں کے حقوق کے ساتھ خیانت کرنے لگیں تو پھر وھیں سے معاشرے کی قوس نزولی کی ابتدا ء ھونے لگتی ھے ۔
انسان کے تمام شعبھٴ حیات میں کچھ مختلف قسم کے فرائض بھر حال ھوتے ھیں جن میں ھر شخص کا حصہ ھوتا ھے ۔ عقل ، فطرت ، دین ھر شخص کے لئے حکم لگاتے ھیں کہ وہ اپنے حصے کی ذمہ داری کو پورا کرے تاکہ اس کی زندگی کے آسمان پر اطمینا ن و بھروسہ کے انوار چمکنے لگیں ۔ کسی کو یہ حق نھیں ھے کہ ان تمام ذمہ داریوں کو انسانی زندگی کی لغت سے حذف کر دے یا خدا کی طرف سے یا معاشرے کی طرف سے عائد پابندیوں سے چشم پوشی کر کے ان کو بے قیمت سمجھنے لگے ۔ اس لئے کہ انسان کو ۔ اپنی فطرت کے مطابق ۔اپنی آپسی زندگی اور معاشرے کے درمیان عدم اعتماد باھمی کو فروغ دینے کا حق نھیں ھے اور باھمی تعاون بھرحال ضروری ھوتاھے تاکہ آپسی تعاون اور دوسروں کی مدد سے زندگی کی مشکلات پر قابو پایا جا سکے ۔ اگر چہ اپنی ذمہ داریوں کو نبھانا بھت ھی دشوار اور فدا کاری کا محتاج و مشکلات سے بھر پور ھوتا ھے کیونکہ ھر انسان ھمیشہ یہ چاھتا ھے کہ کسی مشقت کو برداشت کئے بغیر راحت و آسائش حاصل کر لے ، لیکن مشکلات کو برداشت کئے بغیر نیک بختی کا حصول نا ممکن ھے ۔ اسی لئے بزرگوں نے کھا ھے کھ: خوش بختی ذمہ داریوں کو نباھنے کا نتیجہ ھوتی ھے ۔ ویسے یہ ممکن ھے کہ دوسروں کی ذمہ داریوں کی تکمیل میں فرد کا بھی حصہ ھو کیونکہ اگر فرد اپنی شخصی ذمہ داریوں کو پورا نہ کرے تو لوگوں کے ذھن پر اس کا اچھا اثر نہ ھوگا اور یہ بات دوسروں کے سلوک و برتاؤ و افعال میں اثر انداز ھو گی ۔
شخصی سعادت سے کھیں زیادہ ضروری اجتماعی سعادت ھوتی ھے بلکہ اجتماعی سعادت ھی افراد کی سعادت کی بنیاد ھوا کرتی ھے ۔ معاشرے کے حقوق کو پورا نہ کرنا اجتماعی روح عدالت کے منافی ھے اور یہ چیز عمومی نظم و نسق میں رخنہ انداز ھوتی ھے ۔ زندگی ، آزادی ، دوسروں کی حیثیت کو ملحوظ رکھنا یہ ساری چیزیں ھر فرد کی شخصی ذمہ داری ھوتی ھیں جو حضرات اپنی ذمہ داریوں کی تکمیل کرتے ھیں اور معاشرے کے حقوق کو اچھی طرح ادا کرتے ھیں وہ علاوہ اس کے کہ عموماً مورد اعتماد ھوتے ھیں اور زندگی کی دوڑ میں ھمیشہ کامیابی سے ھم آغوش رھتے ھیں ، وہ دوسروں کی بھی خوشبختی کا سبب اور ان کی کامیابی میں معین و مدد گار ھوتے ھیں ۔
ساموئیل اسمایلز کھتا ھے : ذمہ داری ھر شخص کےلئے ایک قرض کی حیثیت رکھتی ھے ۔جو شخص بے اعتباری کے ننگ سے اور اخلاقی دیوالیہ پن سے محفوظ رھنا چاھتا ھے اس کے لئے ضروری ھے کہ اپنے فرض کو ادا کر دے لیکن شعبھٴ ھائے حیات میں سعی مسلسل اور کوشش بسیار کے بغیر اس فرض کی ادائیگی ممکن نھیں ھے اپنی ذمہ داریوں کو اس دنیا میں آنے کے دن سے جانے تک پورا کرنا انسان کا بھت ھی عمدہ مشغلہ ھے۔ اب جس شخص میں جتنی طاقت و قدرت ھو گی وہ اسی اعتبار سے اپنے وظیفے کو پورا کرے گا کیونکہ اس دنیا کے اندر انسان کی مثال اس مزدور کی طرح ھے جس کی ڈیوٹی ھو کہ وہ اپنے اور اپنے دیگر ابنائے نوع کے لئے کوشش کرے ۔ اس ذمہ داری کا احساس حب عدالت کی بنیاد پر موقوف ھے ۔ یہ صرف مذھبی تصور نھیں ھے بلکہ حیات انسانی کا بنیادی قاعدہ ھے ۔ ذمہ داری کا احساس دنیا کی قوموں کے لئے بزرگترین نعمت ھے۔ جس قوم کے افراد میں یہ شریف روح ھو گی اس کے شاندار مستقبل کی پھلے ھی سے پیشین گوئی کی جا سکتی ھے لیکن اس کے بر عکس جس قوم کے اندر ذمہ داری کے بجائے عیاشی ، خود پرستی ، نفع پرستی رائج ھو جائے تو اس قوم کی حالت زار پر رونا چاھئے کیونکہ پھر اس قوم کے فنا ھو جانے میں ۔ خواہ دیر سے ھو یا جلدی سے ھو ۔ کوئی کسر باقی نھیں رھتی ۔
خیانت اور اس کے خطرات
اس میں کوئی شک نھیں ھے کہ ھمارے آج کے معاشرے میں جو فساد و انحراف پایا جاتا ھے اس کی مختلف علتیں ھیں لیکن جب ھم ان علل و اسباب کو تلاش کرتے ھیں جن کی وجہ سے معنوی افلاس ، اخلاقی پستی ، روحانی کمزوری جوھمارے معاشرے میں پیدا ھوئی ھے تو معلوم ھوتا ھے کہ اس درماندگی اور بد بختی کی سب سے بڑی علت لوگوں کے افکار و عقول پر او ر تمام شعبہ ھائے حیات پر ” خیانت “ کا غالب ھو جانا ھے ۔ معاشرے کے اندر خیانت کی عمومیت اور بتدریج معاشرے کی معنویت کو ختم کر دینے والا خطرہ تمام خطروں سے زیادہ ھے ۔ خیانت آئینہٴ روح کو تاریک بنا کر افکار انسانی کو گمراھی کے راستہ پر ڈال دیتی ھے ۔
شھوت پرستی کی زیادتی کی بنا ء پر یہ منحوس صفت انسان کے اندر جڑ پکڑتی ھے اور اس صفت کی وجہ سے انسان بجائے اس کے کہ اپنی ایمانی طاقت و عقلی قدرت سے استفادہ کرے یہ شیطانی صفت اس کو ذلت و پستی کے قبول کر لینے پر آمادہ کر دیتی ھے ۔
ھر انسان اپنے ماحول میں تما م چیزوں سے زیادہ دوسروں کا اعتماد حاصل کرنے کا محتاج ھے ۔یہ بھت ممکن ھے کہ ایک تاجر یا صنعت پیشہ انسان اپنی خیانت سے کافی دولت کمالے اور ایک مدت تک اس کی پردہ پوشی میں کامیاب بھی ھو جائے لیکن ایک نہ ایک دن اس کا پردہ فاش ھوکے رھتا ھے اور وہ اپنا عظیم ترین سرمایہ ( اعتبار) کھو بیٹھتا ھے اور اپنی پوزیشن خراب کر لیتا ھے ۔
خائن ھمیشہ مضطرب و پریشان رھتا ھے اور ھر چیز کے سلسلے میں بد بین رھتا ھے۔ اگر اس کی علت جاننا چاھتا ھے تو پھر اس کو اپنے نفس ھی سے سوال کرنا ھو گا کیونکہ اگر آپ غور کریں گے تو پتاچلے گا کہ وہ اپنی اسی صفت سے فریاد ی ھے ۔
یہ بات بدیھی ھے کہ عمومی رفاہ اور فکری سکون صرف امن عامہ ھی سے حاصل ھو سکتا ھے ۔ آج کل لوگوں کے اندر جو قلق و اضطراب اور فقدان امن عامہ کا عمومی وجود ھے اس کی علت معاشرے کے اندر خیانت کا پھوٹ پڑنا ھے اور اس قوم کا بیڑھ غرق کر دینا ھے ۔ یاد رکھئے جھاں امن نھیں ھے وھاں آزادی نھیں ھے ۔ برادری نھیں ھے ، انسانیت نھیں ھے اور ھاں خیانت چند امور ھی میں منحصر نھیں ھے بلکہ اس کا مفھوم بھت وسیع ھے ۔ یہ تمام افعال انسانی پرمشمول ھے اگر آپ کسی قول یا فعل کے بارے میں تحقیق و تفتیش کریں گے تو اس کے حدود بھت واضح و معین پائیں گے۔ بس انسان جھاں ان حدوں سے آگے بڑھا اس نے امن عامہ کی سر حد کو پار کر لیا اور خیانت و باطل کے راستے میں داخل ھو گیا ۔
ایک بزرگ نے اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ھوئے کھا : بیٹا تم فقیر و خالی ھاتہ ھو۔ دوسروں کو فریب و مکاری و خیانت سے مالدار ھوتے ھوئے دیکھتے رھو ۔ تم بغیر جاہ و مرتبے کے زندگی بسر کرو ۔ ان لوگوں کو عالی مناصب و بلند مرتبہ پر چاپلوسی سے فائز ھوتے ھوئے دیکھتے رھو۔ تم درد و غم و نا کامی کے ساتھ زندگی بسر کرو اور دوسروں کو تملق و چاپلوسی کے ساتھ اپنے مقاصد میں کامیاب دیکھتے رھو ۔ تم متکبرین کی صحبت سے اجتناب کرو اور لوگوں کو دیکھتے رھو کہ وہ ایسے لوگوں کے تقرب کے لئے اپنی جان دینے کے لئے تیار ھیں ۔ تم لباس تقويٰ و فضائل تک پھونچو۔ا ب اگر بڑھاپے تک تمھارا دامن داغدار نہ ھوتو بڑی خوشی سے اپنے کو موت کے حوالہ کر دو ۔
جوانمردوں کی امانت داری ھی ان کی پونجی ھے ۔ امین آدمی پر ھر شخص اطمینا ن کرتا ھے اور اس کی زندگی بھت ھی درخشاں گزرتی ھے۔ امین آدمی ھر اعتبار سے امانت کا لحاظ کرتا ھے اور اس کے اعمال اس کے گھرے تجربوں کا نچوڑ ھوتے ھیں ۔ انھیں تجربوں کی روشنی میں وہ زندگی بسر کرتا ھے ۔
اسلام کی نظر میں خیانت
پروردگار عالم نے جو قوانین و اصول اپنے بندوں کے لئے وضع فرمائے ھیں ان کو لفظ امانت سے یاد کیا ھے اور متعدد مقامات پر خیانت سے بھت سختی کے ساتھ ممانعت فرمائی ھے۔ چنانچہ ارشاد ھوتا ھے :
۱۔ خدا و ررسول کے ساتھ خیانت نہ کرو اور نہ امانتوں میں خیانت کرو ۔ (۱)
۲۔ خدا کا حکم ھے کہ امانت صاحب امانت کے حوالے کر دو ۔ (۲)
حضرت علی علیہ السلام فرماتے ھیں : سب سے بڑی خیانت مھربان دوست سے خیانت کرنا اور عھد و پیمان کو توڑنا ھے ۔ (۳)
حضرت علی علیہ السلام فرماتے ھیں : سب سے برا وہ شخص ھے جو امانت داری پر ایمان نہ رکھتا ھو اور خیانت سے پرھیز نہ کرتا ھو ۔ (۴)
خیانت سے بچو کیونکہ وہ گناہ کبیرہ ھے ۔ خائن اپنی خیانت کی وجہ سے ھمیشہ آتش جھنم میں جلتا رھے گا ۔ (۵)
امام جعفر صادق علیہ السلام نے اپنے ایک صحابی سے فرمایا : میں تم کو دو باتوں کی وصیت کرتا ھوں (۱) راست گوئی (۲) اچھے وبرے ( ھر شخص ) کی امانت کو واپس کرنا کیونکہ یہ دونوں باتیں روزی کی کنجی ھیں ۔ (۶)
اسلام نے اپنے حیات بخش پروگراموں اور بلند قوانین کے ذریعے لوگوں کو بطور عموم ایک خوش بخت و سعادت بخش زندگی کی طرف اپنی ذمہ داریوں کو پورا کر کے بلایا ھے اور امانت کی حفاظت کے لئے بڑی سختی کے ساتھ تاکید کی ھے ۔ چنانچہ امام سجاد علیہ السلام کا ارشاد ھے : تمھارے اوپر امانتوں کی واپسی واجب ھے ۔ اس خدا کی قسم جس نے محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو نبی بر حق بنا کر بھیجا ھے اگر امام حسین علیہ السلام کا قاتل و ہ تلوار جس سے اس نے میرے باپ کو شھید کیا ھے میرے پاس بطور امانت رکہ دے تو میں اس کی امانت اس کو واپس کردوں گا ۔ (۷)
خیانت کا ر اسلام کی نظر میں اتنا بے قیمت ھے کہ اگر مخصوص شرائط کے ساتھ لوگوں کے مال کو چرا لے تو چوری کے جرم میں اس کے ھاتہ کاٹ دینے کا حکم دیتا ھے اور امن عامہ کی حفاظت اور معاشرے کے حق کی حفاظت کے لئے بڑی سختی کے ساتھ اس پر سزاؤں کا اجرا کرتا ھے ، اور یہ اس لئے ھے تاکہ وظیفہ شناسی کی روح معاشرے میں زندہ ھو جائے اور ایک صالح معاشرہ کے لئے زمین ھموار ھو جائے ۔
ھر ناشائستہ اور برا فعل قطع نظر اس بات سے کہ وہ سقوط انسانیت کا سبب ھوتا ھے خود اس فعل کے ارتکاب کرنے والے کے لئے برے نتائج کا ذمہ دار ھوتا ھے اور وہ اسی دنیا میں اس کا نتیجہ دیکہ لیتا ھے ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : جو شخص برا کام کرے گا اسی دنیا میں اس کی سزا اس کو مل جائیگی ۔
ڈاکٹر روسکین کھتا ھے : میں نے اپنی زندگی میں جس جرم کا بھی ارتکاب کیا ھے وھی میرے خلاف کھڑا ھوا ھے اور میرے سکون و چین کو غارت کر دیا ھے نیز میری فھم و ادراک کی قوتوں میں خلل ڈال دیا ھے ۔ اسی طرح اس کابر عکس بھی صحیح ھے کہ ھر وہ نیک کوشش جو میں نے کبھی ماضی میں کی ھے اور سچائی و حقیقت کی بجلی جو میرے اعمال و افکار سے چمکی ھے وہ ھمیشہ میرے ساتھ رھی ھے ۔مجھے شوق دلاتی اور میری ھمت بڑھاتی رھی ھے کہ میں اپنے بلند مقاصد تک پھونچ سکوں ۔
میکانیکی قانون جو عمل و رد عمل کا قائل ھے وہ علم اخلاق میں بھی پورا اترتا ھے ۔ ھر اچھے اور برے عمل کا اثباتی یا منفی اثر اس کے مالک میں اور اس کے ماننے والوں میں بھرحال ھوتا ھے ۔ (۸)
حضرت علی علیہ السلام کا ارشاد ھے : دوستی و امانت داری ایمان کی علامت ھے ۔ (۹)
حضرت علی علیہ السلام ھی کا ارشاد ھے : خیانت قلت پرھیز گاری اور بے دینی کی دلیل ھے ۔(۱۰)
ایمان روح کے لئے ایک دفاعی ھتھیار ھے اور ایسا موثر ترین عامل ھے جو روح بشر کی گھرائیوں میں نفوذ کر کے اس کے اعمال و کردار پر کنٹرول کر سکتا ھے ۔ ایمان ھی وہ چیز ھے جو اپنے اثر و نفوذ سے شخصی و اجتماعی ذمہ داری کے احساس کو انسان کے اندر زندہ کر کے فساد و آلودگیوں سے روکتا ھے ۔ معاشرے کو صراط مستقیم کی طرف چلا کر مفاسد و خیانتوں کی روک تھام کرتا ھے ۔اسی لئے بچوں کی سعادت و نیک بختی میں والدین کے کردار کابھت بڑا دخل ھے۔ اسی وجہ سے ان کا فریضہ ھے کہ اپنے بچوں پر خصوصی توجہ کر کے ایمان ب اللہ کو ان کے دلوں میں زندہ کریں اور اچھے اخلاق و صفات کو ان کے اندر پرورش کریں ۔
امام زین العابدین علیہ السلام فرماتے ھیں : بچوں کی تربیت و سر پرستی کے سلسلے میں تمھاری بھت بڑی ذمہ داری ھے ۔ تمھارا فریضہ ھے کہ بچوں کو اچھے اخلاق و پسندیدہ صفات سکھاؤ اور ان کی خدا وند عالم کی طرف رھنمائی کرو اور خدائے بزرگ و برتر کی اطاعت و فرمانبرداری پر ان کی مدد کرو ۔ (۱۱)
ڈاکٹر ریمانڈ بیج کھتا ھے : گھر یلو ماحول میں اجمالی طور سے دین کی باتیں کافی نھیں ھیں بلکہ والدین کا فریضہ ھے کہ ان کے جزئی اعمال ، ان کی رفتار و گفتار ، ان کے تخیلات و احساسات اورا ن کے جذبات پر ایمان کی روشنی مسلط کریں ۔
دین دین کو قید بند کی جکڑ سے آزاد کرکے بچوں کی پاکیزہ روح کی گھرائیوں میں اور انکی طیب و طاھر روح میں جو تمھاری نصیحتوںکو سننے کے منتظر ھیں، اصول دین،نجات بخش مبانی کو مضبوطی کے ساتھ بٹھا دیں ۔ ایسا کرنے سے زندگی کے مشکل مراحل میں بھی ان کا عقیدہ اور ایمان دین پر مکمل طرح سے رھتا ھے اور یھی چیز ان کو انحراف و انحطاط سے محفوظ رکہ سکتی ھے۔(۱۲)
حضرت علی علیہ السلام کا ارشاد ھے : صاحبان عقل ادب کے اسی طرح محتاج ھیں جس طرح زراعت پانی کی محتاج ھے ۔(۱۳)
ڈاکٹر ژیلبرٹ روبن کھتا ھے : میری اس بات کو کہ گفتگو و رفتار کی طرح ادب بھی انسان کو فطری طور سے حاصل ھو جاتا ھے ، بھت سے لوگ قبول نہ کریں ۔ سب سے پھلا فریضہ اپنی اجتماعی زندگی میں جو انسان کو حاصل ھوتا ھے وہ زندگی کا ” الفباء “ ھی ھے ۔ یہ بات ذھن میں رکھنی چاھئے کہ انسان کو با ادب بنانے میں عقل کوئی مدد نھیں کرتی بلکہ ادب کی حکمرانی فکر کے بیدار ھونے اور اس کی علامت ظاھر ھونے سے پھلے ھی ھوتی ھے ۔ ھاں ادب سے عقل ضرور استفادہ کرتی ھے لیکن کسی بھی طرح ادب عقل کی مدد کا محتاج نھیں ھوتا ۔ اسی لئے جب میں کسی ماں کو یہ کھتے ھوئے سنتا ھوں کہ ” جانے دو بڑا ھو کر خود ھی سمجھ جائے گا عقل آئے گی “ تو مجھے بڑی تکلیف ھوتی ھے کیونکہ اگر بچہ بچپنے میں ادب کا پابند نہ ھوسکا تو بڑے ھونے پر عقل اس کو ادب نھیں سکھا سکتی ۔ البتہ یہ بات کھی جا سکتی ھے عقل وہ شئی ھے جو ھم کو گمراھی سے بچا سکتی ھے اور صحیح و مختصر راستے کی نشاندھی کر سکتی ھے ۔ عقل ھم کو ھر قسم کے رکود و جمود سے روکتی ھے ۔ عقل جس طرح ھم کو غلط خواھشات و جذبات و میلان سے روکتی ھے اسی طرح ھم کو بغض و حسد ، کینہ ،لوگوں سے نفرت کرنے سے بھی روکتی ھے ۔ اس بات کو ایک جملے میں اس طرح ادا کیا جا سکتا ھے کہ عقل ھم کو اجتماعی بنا تی ھے ۔ دوسروں کی طرف سے منہ موڑ کر صرف اپنے ھی لئے کچھ کرنے سے روکتی ھے۔ جو شخص با ادب ھے وہ تنھا نھیں ھوتا بلکہ وہ عالمی ھوتا ھے اس کی ذات معاشروں کی زبان ھوتی ھے۔ وہ لوگوں کے بیداری کا سبب بنتا ھے ۔ (۱۴)
حوالے
۱۔ سورہ ٴانفال/ ۲۷
۲۔ سورہ نساء/ ۵۸
۳۔ غرر الحکم ص/ ۵۰۵
۴۔ غر ر الحکم ص/ ۴۴۶
۵۔ غرر الحکم ص/ ۱۵۰
۶۔سفینة البحار ج۱ ص /۴۱
۷۔ امالی صدوق ص/ ۱۴۹
۸۔ اخلاق ساموئیل
۹۔ غرر الحکم ص /۴۵۳
۱۰۔ غرر الحکم ص /۵۳
۱۱۔ وافی کتاب کفر و ایمان ص/ ۱۲۷
۱۲۔ماو فرزندان
۱۳۔ غرر الحکم ص /۲۲۴
۱۴۔ مجموعہ چہ میدانم