امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک

علمدار کربلا

0 ووٹ دیں 00.0 / 5



حرم حسین کے پاسدار ، وفاؤں کے پروردگار، اسلام کے علمبردار، ثانیِ حیدرِ کرّار، صولتِ علوی کے پیکر ، خاندانِ رسول کے درخشان اختر ، اسلام کے سپاہ سالارِ لشکر ، قلزمِ علی کے نایاب گوہر، فاطمہ زہرا کے پسر، ثانیِ زہرا کے چہیتے برادر ، ہارونِ کربلا حضرتِ ابوالفضل العبّاس علیہ السلام ۔
کسی کے قلم میں اتنی طاقت کہاں کہ طیّارِ عرشِ معرفت ، اطلسِ شجاعانِ عرب کے بارے میں خامہ فرسایی کر سکے یا انکی فضیلت میں اپنے لبوں کو وا کر سکے ۔ اسلیے کہ انکی فضیلت اور عظمت وہ بیان کر رہے ہیں جو ممدوح خدا ہیں ۔ شخصیت والا صفات کے بارے میں چند روایاتِ معصومین اور چند حقایق تاریخ، قارئین کی خدمت میں پیش کی جا رہی ہیں :
امام سجّاد علیہ السلام فرماتے ہیں :
ان للعباس عندالله تبارک وتعالیٰ منزلة یغبته علیها جمیع الشهداء یو م القیامة خدا وند عالم کے نزدیک عبّاس کی وہ منزلت ہے کہ تمام شہدا قیامت کے دن رشک کرینگے ( ۱)
امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں :
کان عمّی العباس بن علی نافذ البصیرة ، صلب الایمان ، جاهد مع اخیه الحسین و ابلی بلاء حسنا ومضی شهیدا
میرے عمو عباس جو بصیرتِ نافذ اور ایمان محکم رکھتے تھے انہوں نے اپنے بھائی حسین کے ساتھ جہاد کیا اور بلاء نیک کے متحمل ہوئے اور افتخار شہادت سے شرفیاب ہوے ( ۲)
بصیرت نافذ وہ رکھتا ہے جسکی فکر اور رائے قوی ہو اگر عبّاس اس صفت کے حامل نہ ہوتے تو راہِ اسلام میں یہ فداکاری جو آپ نے پیش کی وہ نہ ہوتی۔
استحکام ایمان حضرتِ عباس کی فداکاری سے ثابت ہوتا ہے ۔ مقاتل نے آپ کا رجز جو آپ نے اپنے داہنے ہاتھ کے کٹ جانے کے بعد پڑ ھا ، یوں بیان کیا ہے :

والله ان قطعتم یمنی انّی احامی ابدا عن دینی
و عن امام صادق الیقین نجل النبی المصطفیٰ الامین


قسم خدا کی اگر میرا داہنا ہاتھ قلم کر دیا تب بھی میں ہمیشہ اپنے دین اور امام جو پیامبر خدا کی یاد گار ہیں حمایت کروں گا۔(۳)

جمالِ حضرتِ عبّاس

آپکو قمرِ بنی ہاشم اس لیے کہا جاتا ہے کہ آپ بہت حسین اور جمیل تھے اور مورّخین نے آپکے حسن و جمال کو اس طرح نقل کیا ہے : کان العباس وسیما جمیلا یرکب الفرس المطہم و رجلاہ یخطان فی الارض و یقال لہ قمر بنی ہاشم۔عباس اتنے خوبصورت اور حسین تھے کہ جب بلند قامت گھو ڑ ے پر سوار ہوتے تو انکے پاؤں زمین پر خط دیتے ہوے جاتے تھے اور انکو لوگ بنی ہاشم کا چاند کہتے تھے ۔ (۴)

علمِ حضرتِ عبّاس

حضرت عبّاس کے علم کے بارے میں آئمہ فرماتے ہیں : ان العباّس بن علی زق العلم زقاعبّاس
نے علم کو اس طرح حاصل کیا جیسے کبو تر اپنے بچّے کو دانا چگاتا ہے ۔( ۵)
ملّا محمد باقر بجنوردی اپنی کتاب الکبریت الاحمر میں لکھتے ہیں عبّاس اہلبیت کے افاضل اور اکابر فقہا میں سے ہیں بلکہ وہ عالم غیر معلّم ہیں ۔( ۶)
امامِ سجّاد اپنے خطبہ میں جو آپ نے دربارِ یزید میں ارشاد فرمایا ایک جملہ حضرتِ عبّاس کے لیے ارشاد فرماتے ہیں : انّہ من اہل بیت زقّو العلم زقا۔ وہ اس خاندان سے تعلّق رکھتے ہیں جنہوں نے علم کو غذا کی طرح کھایا ہے جب یزید نے اس جملہ کو سنا بے اختیار ا سکی زبان سے نکلا کہ اس کلمہ کو عرب پرندہ کو غذا دینے کے لیے استعمال کرتے ہیں اسلیے زقوالعلم زقا کا مطلب ہے کہ خاندان پیامبر اپنی اولاد کو بچپنے میں ہی علم سے آراستہ کر دیتے ہیں ۔

شجاعتِ حضرتِ عبّاس

تاریخ نے شجاعتِ حضرتِ عبّاس کو اس طرح نقل کیا ہے : کالجبل العظیم و قلبه کا الّطود الجسیم لانّه کان فارسا هماما و بطلا ضرغاما و کا ن جسوراعلیٰ الطّعن والضرب فی میدان الکفّار۔وہ بلندی میں کوہِ عظیم کی مانندقوّت میں ان کاقلب بلند و وسیع پہاڑ کی طرح شجاعِ بے مثال شیرِ ضرغام تھے جنگ میں کفار ہمّت اور مردانگی کی داد دیتے تھے ۔ (۸)
روایت میں ہے کہ جنگِ صفین میں ایک جوانِ نقابدار لشکرِ امیرالمومنین سے نکلا جس سے ہیبت اور شجاعت ظاہر ہوتی تھی جسکی عمر تقریبا سولہ سال ہو گی اور جنگ کرنے کے لیے مبارز طلب کرنے لگا معاویہ نے ابو شعثاء کو حکم دیا کہ
جنگ کرے ابو شعثاء نے کہا شام کے لوگ مجھے ہزار سوار کے برابر سمجھتے ہیں میرے سات بیٹے ہیں میں ان میں سے ایک کو بھیجتا ہوں وہ اس کا کام تمام کر دے گا اور اس نے اپنے ایک بیٹے کو بھیجا لیکن وہ قتل ہو گیا اسی طرح اس نے اپنے ساتوں بیٹوں کو بھیجا اور سب قتل ہوتے رہے ابو شعثاء نے جب یہ دیکھا دنیا ا سکی نظر میں تاریک ہو گئی وہ خود بھی میدان میں آیا اور وہ بھی جہنم واصل ہوا جب لوگوں نے شجاعت کے اس ٹھاٹیں مارتے ہوے سمندر کو میدان میں دیکھا تو کسی کی ہمّت نہ ہوئی کہ کوئی اس شجاع بے مثال کے مقابلہ میں جاتا وہ جوان اپنے لشکر کی طرف پلٹ گیا اصحاب امیرالمومنین حیرت زدہ تھے کہ یہ جوان کون ہے لیکن جب نقاب رخ سے ہٹی تو پتا چلا کہ قمرِ بنی ہاشم حضرتِ ابوالفضل العباس ہیں (۹)
شجاعت حضرتِ عبّاس کا اس روایت سے با خوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے وہ چیزیں جو اہلبیت کے لشکر سے لوٹی گئیں تھیں ان میں پرچمِ حضرت عبّاس بھی تھا جب یہ تمام اشیاء یزید کے سامنے پیش کی گئی تو یزید کی نگاہ اس پرچم پر گئیوہ
غور سے اس پرچم کو دیکھتا رہا اور تعجّب سے کبھی اٹھتا تھا کبھی بیٹھتا تھا کسی نے سوال کیا امیر کیا ہوا کہ اس طرح مبہوت اورحیرت زدہ ہو یزید نے پوچھا یہ پرچم کربلا میں کس کے ہاتھ میں تھا کہا عبّاس برادرِ حسین کے ہاتھ میں یزید کہتا ہے کہ مجھے تعجّب اس علمبردار کی شجاعت پر ہے پوچھا کیوں ؟ کہا دیکھو پورا پرچم حتیّٰ اس کی لکڑ ی پر تیروں اور دوسرے اسلحوں کے نشانات ہیں صرف اس ایک جگہ کے جہاں سے اس کو پکڑ ا گیا ہے یہ جگہ کاملا محفوظ ہے ا سکا مطلب ہے کہ تیر اور دوسرے اسلحے اس جگہ بھی لگے لیکن اس بہادر نے علم کو اپنے ہاتھ سے رہا نہیں کیا آخری وقت تک اس پرچم کی حفاظت کرتا رہا جب ا سکا ہاتھ گرا تب پرچم گرا ۔
یہ تھا حضرت عبّاس کی شجاعت کا ایک نمونہ ۔خداوند عالم سے دعا ہے کہ ہمیں حقیقی محبین اہلبیت علیہم السلام میں سے قراردے ۔

حوالہ:

۱۔بحار ج ۴۵ ص ۲۹۸
۲۔العبّاس بن علی ص ۳۶ نقل ذخیرۃالدّارین
۳۔ منتہی الامال ج ۱ ص۲۷۱
۴۔ العبّاس ، مقرّم ص۷۶ و خصایص العبّاسیہ ص۱۲۰
۵۔ اسرار الشہادۃ ص۳۲۴
۶۔ الکبریت الاحمر ج ۳ ص۴۵
۷۔ العبّاس ، مقرم ص۹۵
۸۔ خصایص العباسیہ ص ۱۱۸ و ۱۱۹
۹۔ فرسان الھیجاء ج۱ ص
۱۰۱۹۳۔چہرۂ درخشان قمر بنی ہاشم ابوالفضل العبّاس ص ۱۹۰۔

آپ کا تبصرہ شامل کریں

قارئین کے تبصرے

کوئی تبصرہ موجودنہیں ہے
*
*

امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک