امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک

حضرت امام زین العابدین علیہ السلام(حصہ اول)

0 ووٹ دیں 00.0 / 5


آپ کی ولادت باسعادت

آپ بتاریخ ۱۵/ جمادی الثانی ۳۸ ھ یوم جمعہ بقولے ۱۵/ جمادی الاول ۳۸ ھ یوم پنجشنبہ بمقام مدینہ منورہ پیداہوئے (اعلام الوری ص ۱۵۱ ومناقب جلد ۴ ص ۱۳۱) ۔
علامہ مجلسی تحریرفرماتے ہیں کہ جب جناب شہربانوایران سے مدینہ کے لیے روانہ ہورہی تھیں توجناب رسالت مآب نے عالم خواب میں ان کاعقدحضرت امام حسین علیہ السلام کے ساتھ پڑھ دیاتھا (جلاء العیون ص ۲۵۶) ۔ اورجب آپ واردمدینہ ہوئیں توحضرت علی علیہ السلام نے امام حسین علیہ السلام کے سپردکرکے فرمایاکہ یہ وہ عصمت پروربی بی ہے کہ جس کے بطن سے تمہارے بعدافضل اوصیاء اورافضل کائنات ہونے والابچہ پیداہوگا چنانچہ حضرت امام زین العابدین متولدہوئے لیکن افسوس یہ ہے کہ آپ اپنی ماں کی آغوش میں پرورش پانے کالطف اٹھانہ سکے ”ماتت فی نفاسہابہ“ آپ کے پیداہوتے ہی ”مدت نفاس“ میں جناب شہربانوکی وفات ہوگئی (قمقام جلاء العیون)۔عیون اخباررضا دمعة ساکبة جلد ۱ ص ۴۲۶) ۔
کامل مبردمیں ہے کہ جناب شہربانو،بادشاہ ایران یزدجردبن شہریاربن شیرویہ ابن پرویزبن ہرمزبن نوشیرواں عادل ”کسری“ کی بیٹی تھیں (ارشادمفیدص ۳۹۱ ،فصل الخطاب) علامہ طریحی تحریرفرماتے ہیں کہ حضرت علی نے شہربانوسے پوچھاکہ تمہارانام کیاہے توانہوں نے کہا”شاہ جہاں“ حضرت نے فرمایانہیں اب ”شہربانوہے (مجمع البحرین ص ۵۷۰)


نام،کنیت ،القاب

آپ کااسم گرامی ”علی“ کنیت ابومحمد۔ ابوالحسن اورابوالقاسم تھی، آپ کے القاب بےشمارتھے جن میں زین العابدین ،سیدالساجدین، ذوالثفنات، اورسجادوعابد زیادہ مشہورہیں (مطالب السؤل ص ۲۶۱ ،شواہدالنبوت ص ۱۷۶ ،نورالابصار ص ۱۲۶ ،الفرع النامی نواب صدیق حسن ص ۱۵۸) ۔


لقب زین العابدین کی توجیہ

علامہ شبلنجی کابیان ہے کہ امام مالک کاکہناہے کہ آپ کوزین العابدین کثرت عبادت کی وجہ سے کہاجاتاہے (نورالابصار ص ۱۲۶) ۔
علماء فریقین کاارشادہے کہ حضرت امام زین العابدین علیہ السلام ایک شب نمازتہجد میں مشغول تھے کہ شیطان اژدھے کی شکل میں آپ کے قریب آگیا اوراس نے آپ کے پائے مبارک کے انگوٹھے کومنہ میں لے کاٹناشروع کیا، امام جوہمہ تن مشغول عبادت تھے اورآپ کارجحان کامل بارگاہ ایزدی کی طرف تھا، وہ ذرابھی اس کے اس عمل سے متاثرنہ ہوئے اوربدستورنمازمیں منہمک ومصروف ومشغول رہے بالآخروہ عاجزآگیا اورامام نے اپنی نمازبھی تمام کرلی اس کے بعدآپ نے اس شیطان ملعون کوطمانچہ مارکردورہٹادیا اس وقت ہاتف غیبی نے انت زین العابدین کی تین بارصدادی اورکہابے شک تم عبادت گزاروں کی زینت ہو، اسی وقت آپ کایہ لقب ہوگیا(مطالب السؤل ص ۲۶۲ ،شواہدالنبوت ص ۱۷۷) ۔
علامہ ابن شہرآشوب لکھتے ہیں کہ اژدھے کے دس سرتھے اوراس کے دانت بہت تیزاوراس کی آنکھیں سرخ تھیں اوروہ مصلی کے قریب سے زمین پھاڑکے نکلاتھا (مناقب جلد ۴ ص ۱۰۸) ایک روایت میں اس کی وجہ یہ بھی بیان کی گئی ہے کہ قیامت میں آپ کواسی نام سے پکاراجائے گا (دمعة ساکبة ص ۴۲۶) ۔


لقب سجادکی توجیہ

ذہبی نے طبقات الحفاظ میں بحوالہ امام محمدباقرعلیہ السلام لکھاہے کہ حضرت امام زین العابدین علیہ السلام کوسجاد اس لیے کہاجاتاہے کہ آپ تقریبا ہرکارخیرپرسجدہ فرمایاکرتے تھے جب آپ خداکی کسی نعمت کاذکرکرتے توسجدہ کرتے جب کلام خداکی آیت ”سجدہ“ پڑھتے توسجدہ کرتے جب دوشخصوں میں صلح کراتے توسجدہ کرتے اسی کانتیجہ تھاکہ آپ کے مواضع سجودپراونٹ کے گھٹوں کی گھٹے پڑجاتے تھے پھرانہیں کٹواناپڑتاتھا۔
 


امام زین العابدین علیہ السلام کی نسبی بلندی

نسب اورنسل باپ اورماں کی طرف سے دیکھے جاتے ہیں، امام علیہ السلام کے والدماجد حضرت امام حسین اورداداحضرت علی اوردادی حضرت فاطمہ زہرا بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں اورآپ کی والدہ جناب شہربانوبنت یزدجردابن شہریارابن کسری ہیں ،یعنی آپ حضرت پیغمبراسلام علیہ السلام کے پوتے اورنوشیرواں عادل کے نواسے ہیں ،یہ وہ بادشاہ ہے جس کے عہدمیں پیداہونے پرسرورکائنات نے اظہارمسرت فرمایاہے ،اس سلسلہ نسب کے متعلق ابوالاسود دوئلی نے اپنے اشعارمیں اس کی وضاحت کی ہے کہ اس سے بہتر اورسلسلہ ناممکن ہے اس کاایک شعریہ ہے۔

وان غلاما بین کسری وہاشم
لاکرم من ینطت علیہ التمائم

اس فرزندسے بلندنسب کوئی اورنہیں ہوسکتا جونوشیرواں عادل اورفخرکائنات حضرت محمدمصطفی کے داداہاشم کی نسل سے ہو(اصول کافی ص ۲۵۵) ۔
شیخ سلیمان قندوزی اوردیگرعلماء اہل اسلام لکھتے ہیں کہ نوشیرواں کے عدل کی برکت تودیکھوکہ اسی کی نسل کوآل محمدکے نورکی حامل قراردیا اورآئمہ طاہرین کی ایک عظیم فردکواس لڑکی سے پیداکیا جونوشیرواں کی طرف منسوب ہے ،پھرتحریرکرتے ہیں کہ امام حسین کی تمام بیویوں میں یہ شرف صرف جناب شہربانوکونصیب ہوجوحضرت امام زین العابدین کی والدہ ماجدہ ہیں (ینابیع المودة ص ۳۱۵ ،وفصل الخطاب ص ۲۶۱) ۔
علامہ عبیداللہ بحوالہ ابن خلکان لکھتے ہیں کہ جناب شہربانوشاہان فارس کے آخری بادشاہ یزدجردکی بیٹی تھیں اورآپ ہی سے امام زین العابدین متولدہوئے ہیں جن کو”ابن الخیرتین“ کہاجاتاہے کیونکہ حضرت محمدمصطفی فرمایاکرتے تھے کہ خداوندعالم نے اپنے بندوں میں سے دوگروہ عرب اورعجم کوبہترین قراردیاہے اورمیں نے عرب سے قریش اورعجم سے فارس کومنتخب کرلیاہے ،چونکہ عرب اورعجم کااجتماع امام زین العابدین میں ہے اسی لیے آپ کو”ابن الخیرتین“ سے یادکیاجاتاہے (ارجح المطالب ص ۴۳۴) ۔ علاہ ابن شہرآشوب لکھتے ہیں کہ جناب شہربانوکو ”سیدةالنساء “ کہاجاتاہے (مناقب جلد ۴ ص ۱۳۱) ۔


امام زین العابدین کے بچپن کاایک واقعہ

علامہ مجلسی رقمطرازہیں کہ ایک دن امام زین العابدین جب کہ آپ کابچپن تھا بیمارہوئے حضرت امام حسین علیہ السلام نے فرمایا”بیٹا“ اب تمہاری طبیعت کیسی ہے اورتم کوئی چیزچاہتے ہوتوبیان کروتاکہ میں تمہاری خواہش کے مطابق اسے فراہم کرنے کی سعی کروں آپ نے عرض کیا باباجان اب خداکے فضل سے اچھاہوں میری خواہش صرف یہ ہے کہ خداوندعالم میراشماران لوگوں میں کرے جوپروردگارعالم کے قضاوقدرکے خلاف کوئی خواہش نہیں رکھتے ،یہ سن کرامام حسین علیہ السلام خوس ومسرورہوگئے اورفرمانے لگے بیٹا،تم نے بڑامسرت افزا اورمعرفت خیزجواب دیاہے تمہاراجواب بالکل حضرت ابراہیم کے جواب سے ملتاجلتاہے ،حضرت ابراہیم کوجب منجیق میں رکھ کر آگی طرف پھینکا گیاتھا اورآپ فضامیں ہوتے ہوئے آگ کی طرف جارہے تھے توحضرت جبرئیل نے آپ سے پوچھا”ہل لک حاجة“ آپ کی کوئی حاجت وخواہش ہے اس وقت انہوں نے جواب دیاتھا ”نعم اماالیک فلا“ بےشک مجھے حاجت ہے لیکن تم سے نہیں اپنے پالنے والے سے ہے (بحارالانوار جلد ۱۱ ص ۲۱ طبع ایران)۔


آپ کے عہدحیات کے بادشاہان وقت

آپ کی ولادت بادشاہ دین وایمان حضرت علی علیہ السلام کے عہدعصمت مہدمیں ہوئی پھرامام حسن علیہ السلام کازمانہ رہاپھربنی امیہ کی خالص دنیاوی حکومت ہوگئی، صلح امام حسن کے بعدسے ۶۰ ھ تک معاویہ بن ابی سفیان بادشاہ رہا، اس کے بعداس کافاسق وفاجربیٹا یزید ۶۴ ھ تک حکمران رہا ۶۴ ھ میں معاویہ بن یزیدابن معاویہ اورمروان بن حکم حاکم رہے ۶۵ ھ سے ۸۶ ھ تک عبدالملک بن مروان حاکم اوربادشاہ رہا پھر ۸۶ ھ سے ۹۶ ھ تک ولیدبن عبدالملک نے حکمرانی کی اوراسی نے ۹۵ ھء میں حضرت امام زین العابدین علیہ السلام کوزہردغاسے شہیدکردیا (تاریخ آئمہ ۳۹۲ ،وصواعق محرقہ ص ۱۲ ،نورالابصار ص ۱۲۸) ۔


امام زین العابدین کاعہدطفولیت اورحج بیت اللہ

علامہ مجلسی تحریرفرماتے ہیں کہ ابراہیم بن اوہم کابیان ہے کہ میں ایک مرتبہ حج کے لیے جاتاہواقضائے حاجت کی خاطرقافلہ سے پیچھے رہ گیاابھی تھوڑی ہی دیرگزری تھی کہ میں نے ایک نوعمرلڑکے کواس جنگل میں سفرپیمادیکھا اسے دیکھ کرپھرایسی حالت میں کہ وہ پیدل چل رہاتھا اوراس کے ساتھ کوئی سامان نہ تھا اورنہ اس کاکوئی ساتھی تھا،میں حیران ہوگیافورا اس کی خدمت میں حاضرہوکرعرض پردازہوا ”صاحبزادے“ یہ لق ودق صحرا اورتم بالکل تنہا، یہ معاملہ کیاہے، ذرا مجھے بتاؤتوسہی کہ تمہارازادراہ اورتمہاراراحلہ کہاں ہے اورتم کہاں جارہے ہو؟ اس نوخیزنے جواب دیا ”زادی تقوی وراحلتی رجلاء وقصدی مولای“ میرا زادراہ تقوی اورپرہیزگاری ہے اورمیری سواری میرے دونوں پیرہیں اورمیرامقصد میراپالنے والاہے اورمیں حج کے لے جارہاہوں ،میں نے کہاکہ آپ توبالکل کمسن ہیں حج توابھی آپ پرواجب نہیں ہے اس نوخیزنے جواب دیابے شک تمہاراکہنادرست ہے لیکن اے شیخ میں دیکھاکرتاہوں کہ مجھ سے چھوٹے بچے بھی مرجاتے ہیں اس لیے حج کوضروری سمجھتاہوں کہ کہیں ایسانہ ہوکہ اس فریضہ کی ادائیگی سے پہلے مرجاؤں میں نے پوچھااے صاحبزادے تم نے کھانے کاکیاانتظام کیاہے ،میں دیکھ رہاہوں کہ تمہارے ساتھ کھانے کابھی کوئی معقول انتظام نہیں ہے، اس نے جواب دیااے شیخ کیاجب تم نے کسی کے یہاں مہمان جاتے ہوتوکھانااپنے ہمراہ لے جاتے ہو؟ میں نے کہانہیں پھراس نے فرمایا سنومیں توخداکامہمان ہوکرجارہاہوں کھانے کاانتظام اس کے ذمہ ہے میں نے کہااتنے لمبے سفرکوپیدل کیوں کرطے کروگے اس نے جواب دیاکہ میراکام کوشش کرناہے اورخداکاکام منزل مقصودپہنچاناہے ۔
ہم ابھی باہمی گفتگوہی میں مصروف تھے کہ ناگاہ ایک خوبصورت جوان سفیدلباس پہنے ہوئے آپہنچا اوراس نے اس نوخیزکوگلے سے لگالیا،یہ دیکھ کر میں نے اس جوان رعناسے دریافت کیاکہ یہ نوعمرفرزندکون ہے؟ اس نوجوان نے کہاکہ یہ حضرت امام زین العابدین بن امام حسین بن علی بن ابی طالب ہیں، یہ سن کر میں اس جوان رعناکے پاس سے امام کی خدمت میں حاضرہوا اورمعذرت خواہی کے بعدان سے پوچھاکہ یہ خوبصورت جوان جنہوں نے آپ کوگلے سے لگایا یہ کون ہیں؟ انہوں نے فرمایاکہ یہ حضرت خضرنبی ہیں ان کافرض ہے کہ روزانہ ہماری زیارت کے لیے آیاکریں اس کے بعدمیں نے پھرسوال کیااورکہا کہ آخرآپ اس طویل اورعظیم سفرکوبلازاداورراحلہ کیونکہ طے کریں گے توآپ نے فرمایاکہ میں زادارراحلہ سب کچھ رکھتاہوں اوروہ یہ چارچیزیں ہیں :
۱ ۔ دنیااپنی تمام موجودات سمیت خداکی مملکت ہے۔
۲ ۔ ساری مخلوق اللہ کے بندے اورغلام ہیں۔
۳ ۔ اسباب اورارزاق خداکے ہاتھ میں ہے_
۴ ۔ قضائے خداہرزمین میں نافذہے ۔
یہ سن کرمیں نے کہاخداکی قسم آپ ہی کازادوراحلہ صحیح طورپرمقدس ہستیوں کاسامان سفر ہے (دمعہ ساکبہ جلد ۳ ص ۴۳۷) علماء کابیان ہے کہ آپ نے ساری عمرمیں ۲۵ حج پاپیادہ کئے ہیں آپ نے سواری پرجب بھی سفرکیاہے اپنے جانورکوایک کوڑابھی نہیں مار


آپ کاحلیہ مبارک

امام شبلنجی لکھتے ہیں کہ آپ کارنگ گندم گوں (سانولا) اورقدمیانہ تھا آپ نحیف اورلاغرقسم کے انسان تھے (نورالابصار ص ۱۲۶ ، اخبارالاول ص ۱۰۹) ۔
ملامبین تحریرفرماتے ہیں کہ آپ حسن وجمال ،صورت وکمال میں نہایت ہی ممتازتھے، آپ کے چہرہ مبارک پرجب کسی کی نظرپڑتی تھی تووہ آپ کااحترام کرنے اورآپ کی تعظیم کرنے پرمجبورہوجاتاتھا(وسیلة النجات ص ۲۱۹) محمدبن طلحہ شافعی رقمطرازہیں کہ آپ صاف کپڑے پہنتے تھے اورجب راستہ چلتے تھے تونہایت خشوع کے ساتھ راہ روی میں آپ کے ہاتھ زانوسے باہرنہیں جاتے تھے (مطالب السؤل ص ۲۲۶،۲۶۴) ۔

--

حضرت امام زین العابدین علیہ السلام(حصہ دوم)

--

http://alhassanain.org/urdu/?com=content&id=707

--

http://alhassanain.org/urdu/?com=content&id=708

آپ کا تبصرہ شامل کریں

قارئین کے تبصرے

کوئی تبصرہ موجودنہیں ہے
*
*

امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک