ماہ رمضان المبارک خطبۂ شعبانیہ کے آئینہ میں
ماہ رمضان المبارک اپنے آپ کو برائیوں اور گناہوںسے پاک کرنے ، فضائل و کمالات سے آراستہ ہونے اور رب کریم سے قرب کاایک بہترین اورمناسب موقع ہے۔لیکن اس فرصت اور موقع سے صحیح اور مکمل استفادہ کرنا اسی وقت میسر ہے جب انسان اس مہینہ کی عظمت و فضیلت ، اس کے احکام و اعمال واجبات و محرمات سے باخبر ہو۔
اس سلسلہ کاایک عظیم الشان منبع و ماخذ خطبۂ شعبانیہ ہے جس میں ان تمام چیزوں کو بطور احسن بیان کیا گیا ہے۔ انسان اس میں غور وفکر کے ذریعہ مذکورہ امور کی معرفت اور شناخت پیدا کر سکتا ہے۔ اس خطبہ کو رسول اکرم ، حضرت محمد مصطفےٰ نے ماہ شعبان کے آخری دنوںمیں مسلمانوں کے سامنے ارشاد فرمایاہے ۔
اس خطبہ کو شیخ صدوق علیہ الرحمہ نے اپنی کتاب ’’اخبار عیون الرضا علیہ السلام ‘‘ میں نقل کیا ہے۔ امام علی رضا علیہ السلام نے اپنے آبائے طاہرین سے انھوں نے امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام سے اور آپ (ع) نے رسول اکرم سے نقل فرمایا ہے۔
خطبۂ شعبانیہ میں بیان شدہ مطالب کو چار اہم محور پر تقسیم کیا جا سکتا ہے:
۱۔ فضائل ماہ رمضان المبارک؛
۲۔ اعمال ماہ رمضان المبارک؛
۳۔ تقویٰ و پرہیز گاری؛
۴۔ حضرت علی علیہ السلام کا تعارف۔
٭٭٭
پہلا محور:
فضائل ماہ رمضان المبارک اس خطبہ کے شروع میں رسول اکرم نے مومنین کو ماہ رمضان کی آمد کی خوشخبری دیتے ہوئے ارشاد فرمایا: ایھا الناس انہ قد اقبل الیکم شھر اللہ بالبرکۃ و الرحمۃ و المغفرۃ. اے لوگو! ماہ خدا تمہاری طرف برکت ، رحمت اور مغفرت کے ساتھ آگیا ہے۔‘‘ آپ (ص) نے اس مہینہ کو شہرا للہ ﴿خدا کا مہنیہ ﴾کہا ہے ، اگرچہ سارے مہنیے خدا ہی کے مہینے ہیں لیکن چونکہ ماہ رمضان کو ایک خاص شرف و فضیلت حاصل ہے اور اس مہینہ میں خدا سے نزدیک ہونے اور عبودیت و اخلاص کے زیور سے آراستہ ہونے کے تمامتر مواقع فراہم ہوتے ہیں اسی لئے روایات میں اس مہینہ کو شہر اللہ کہا گیا ہے۔
اوج فضیلت
رسول اعظم نے ارشاد فرمایا: شہر ھو عند اللہ افضل الشہور و ایامہ افضل الایام و لیالیہ افضل اللیالی و ساعاتہ افضل الساعات. ’’یہ مہینہ خدا کے نزدیک سب سے برتر اور بافضلیت مہینہ ہے، اس کے دن سب سے افضل دن، اس کی راتیں سب سے افضل راتیں اور اس کے اوقات و ساعات سب سے افضل اوقات و ساعات ہیں۔ ‘‘اس کے بعد آپ نے ایک بہت اہم بات بیان فرمائی کہ اس مہینہ میں مومنین کو خدا کی مہمانی کی دعوت دی گئی ہے اور انھیں کرامت الٰہی کا اہل قرار دیا گیا ہے: دعیتم فیہ الیٰ ضیافۃ اللہ و جعلتم فیہ من اھل کرامۃ اللہ. یہ ماہ رمضان المبارک کی سب سے برتر اور بالاتر فضیلت ہے اسلئے کہ ایک کریم صاحب خانہ اپنے مہمانوں کی بطور احسن مہمان نوازی کرتا ہے اور اس کی حاجتوں کو روا کرتا ہے۔
نبی کریم نے اس بے نظیر مہمان نوازی کے بعض جلووں کو اس طرح بیان فرمایا ہے:
۱۔ ماہ رمضان میں انسان کی اطاعت و عبادت کے علاوہ اس کے روزمرہ کے غیر اختیاری امور کو بھی عبادت کا درجہ دیا جاتا ہے اور ان پر ثواب لکھا جاتا ہے۔ اس مبارک مہینہ میں مومنین کی سانسوں کو تسبیح اور نیند کو عبادت کا ثواب دیا جاتا ہے : انفاسکم فیہ تسبیح و نومکم فیہ عبادۃ.
۲۔ نیک اعمال اسی وقت انسان کے معنوی ارتقائ کا باعث بن سکتے ہیں جب وہ بارگار خداوندی میں قبول کر لئے جائیں ۔لیکن بسا اوقات ایساہوتا ہے کہ اعمال مختلف آفات کی بنا پر شرف قبولیت سے محروم رہ جاتے ہیں، مگر یہ کہ فضل و کرم پروردگار ان کی قبولیت کا باعث بن جائے۔ ماہ رمضان میں یہ فضل و کرم مومنین کے شامل حال ہوتا ہے اور ان کے اعمال مقبول بارگاہ الٰہی قرار پاتے ہیں: و عملکم فیہ مقبول.
۳۔ ماہ رمضان میں خداوند عالم اپنے مہمانوں کی حاجتوں کو بر لاتا ہے اور ان کی دعاؤں کو مستجاب کرتا ہے : دعائ کم فیہ مستجاب.
۴۔ پروردگار عالم نے ہر نیک عمل کے لئے ایک خاص مقدار میںثواب معین کررکھا ہے ۔ لیکن ماہ رمضان میں یہ ثواب کئی گنا ہوجاتے ہیں ۔ نبی اکرم اسی امر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں: جو شخص اس مہینہ میں کسی مومن روزہ دار کو افطاری دے گا ، پروردگار اسے ایک غلام آزاد کرنے کا ثواب دے گا اور اس کے گذشتہ گناہ معاف کر دے گا ۔ جو شخص اس مہینہ میں ایک واجبی نماز ادا کرے گا خدا وندعالم اسے ستر واجبی نمازوں کا ثواب عطا فرمائے گا اور جو شخص ایک آیت قرآن کی تلاوت کرے گا اسے ایک قرآن ختم کرنے کا ثواب دے گا۔
۵۔ ماہ رمضان میں جنت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور جہنم کے دروازے بند کر دیئے جاتے ہیں اور شیاطین کو زنجیروں میں جکڑ دیا جاتا ہے: ایھا الناس ان ابواب الجنان فی الشھر مفتحۃ و ابواب النیران مغلقۃ و الشیاطین مغلولۃ.
دوسرا محور:
اعمال ماہ رمضان المبارک اگرچہ ماہ رمضان میں تمام انسانوں کو خدائی مہمانی کی دعوت دی گئی ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ سب کے سب خدا کے مہمان ہیں بلکہ صرف وہی افراد خدا کے مہمان بن سکتے ہیں جنھوں نے خالص و صحیح نیت اور نیک و پسندیدہ اعمال کے ساتھ اس دعوت الٰہی پر لبیک کہا ہے اور اس عظیم مہمانی میں داخل ہوئے ہیں۔
اس کے علاوہ جس طرح میزبان پر لازم ہے کہ وہ اپنے مہمانوں کی اچھی طرح مہمان نوازی کرے اسی طرح مہمانوںکے اوپر بھی میزبان کے سلسلہ میں کچھ ذمہ داریاں ہیںکہ ان کا برتاؤ بھی میزبان کے شایان شان ہوں۔ اس مہینے میں روزہ داروں کے حالات، عادات و اطوار اور رفتار و کردار دوسرے مہینوں سے الگ ہوں اور انھیں مندرجہ ذیل اعمال کو مزید اخلاص اور توجہ کے ساتھ انجام دینا چاہئے:
۱۔ تلاوت قرآن کریم
اس خطبہ میںرسول اعظم نے حکم روزہ کے بعد جس چیز کی زیادہ تاکید فرمائی ہے وہ تلاوت قرآن کریم ہے ۔ آنحضرت (ص) نے ارشاد فرمایا: سچی نیتوں اور پاک و پاکیزہ دلوں سے اپنے پروردگار سے دعا کرو کہ وہ تمہیں اس مہینہ میں روزہ رکھنے اور قرآن کی تلاوت کی توفیق عنایت فرمائے۔ماہ رمضان میں قرآن کریم کی تلاوت اور اس کی آیات میں تدبر و تفکر کو ایک خاص اہمیت اور فضیلت حاصل ہے ، اس لئے کہ یہ مہینہ نزول قرآن کا مہینہ ہے اور شاید ماہ رمضان کی فضیلت کا ایک اہم سبب یہی ہے کہ اس مہینہ میں قرآن نازل ہوا ہے جیسا کہ پروردگار نے ارشاد فرمایا: شَہْْرُ رَمَضَانَ الَّذِی ٲُنزِلَ فِیہِ الْْقُرْْآنُ ہُدًی لِلنَّاسِ وَبَیِّنَاتٍ مِنْْ الْْہُدَی وَالْْفُرْْقَان۔ ﴿سورۂ بقرہ،آیت۵۸۱﴾
’’ماہ رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا ہے جو لوگوں کے لئے ہدایت ہے اور اس میں ہدایت اور حق و باطل کے امتیاز کی واضح نشانیاں موجود ہیں۔‘‘
اگرچہ اس مہینہ میں تلاوت قرآن کا بہت ثواب ہے لیکن تلاوت ،اس کتاب سے استفادہ کا پہلا اور ادنیٰ مرحلہ ہے ۔مومنین کو صرف اسی پر اکتفائ نہیں کرنا چاہئے بلکہ انھیںاس بات کی پوری کوشش کرنا چاہئے کہ قرآنی مفاہیم و تعلیمات سے زیادہ سے زیادہ روشناس ہوں اور اس میں تدبر کر کے قرآنی احکام و تعلیمات کو اپنی زندگی میں جاری کریں اور اس کی نورانی آیات پر عمل کرکے اپنی دنیاوی اور اخروی زندگی کومنور کریں۔نبی اکرم نے ارشاد فرمایا: من جعلہ امامہ قادہ الی الجنۃ و من جعلہ خلفہ ساقہ الی النار. ﴿الکافی، ج۲،ص۹۹۵﴾
’’ جو شخص قرآن کو آگے رکھے گا اور زندگی میں اس کی پیروی کرے گا قرآن ، قیامت میں اسے جنت کی طرف رہنمائی کرے گا اور جو قرآن کو پس پشت ڈال دے گا اور اس کے دستورات سے لاپرواہی کرے گا قرآن اسے جہنم میں ڈھکیل دے گا۔‘‘
۲۔ دوسروں کے ساتھ نیکی
انسان جتنا اپنے معبود سے نزدیک ہوگا اور اس کا رابطہ اپنے رب سے جتنا مضبوط ہوگا وہ اتنا ہی بندگان خدا کے ساتھ مہربان ہو گا اور ان کی حاجتیں پوری کرنے کی کوشش کرے گا۔ رسول اکرم جو خدا کے سب سے مقرب بندہ ہیں، قرآن نے انھیں عالمین کے لئے رحمت قرار دیا ہے : ﴿سورۂ انبیائ،آیت۷۰۱﴾ اور آنحضرت (ص) نے فرمایا: من اصبح و لم یھتم بامور المسلمین فلیس بمسلم. لہٰذا اسلام میں ایسی گوشہ نشینی جائز نہیں جو دیگر مسلمانوںکے امور سے بے توجہی اور لاپرواہی کا سبب بنے۔
رسول اکرم نے اس خطبہ میں دوسروں کے ساتھ نیکی اور احسان کے مختلف مصادیق کی طرف توجہ اور تاکید فرمائی ہے؛ جیسے فقرا ئ و مساکین کی مالی امداد، بڑوں کا احترام و اکرام اور چھوٹوں کے ساتھ مہربانی، رشتہ داروں سے صلہ رحم، یتیموں کے ساتھ شفقت و مہربانی، مومن روزہ دارکو افطاری دینا اور دوسروں کے ساتھ خوش اخلاقی سے پیش آنا: و تصدقوا علیٰ فقرائکم و مساکینکم و وقروا کبارکم و ارحموا صغارکم و صلو اارحامکم و تحننوا علیٰ ایتام الناس.
۳۔ خدا اور اولیائے خدا سے قریبی رابطہ
ماہ رمضان، پروردگار اورخاصان و مقربان درگار الٰہی سے قریب ہونے اور ان سے رابطہ کو مضبوط و مستحکم کرنے کا بہترین موقع ہے ۔ رسول خدا نے اس خطبہ میں مومنین کو توبہ و استغفار کی دعوت دی ہے تاکہ وہ گذشتہ گناہوں سے پاک و پاکیزہ ہو کر خدا سے رابطہ برقرار کر سکیں۔ آپ (ص) نے ارشاد فرمایا: بارگاہ خدا میں اپنے گناہوں سے توبہ کرو ۔ تمہاری جانیں تمہارے اعمال کی قیدی ہیں انھیں استغفار کے ذریعہ آزاد کراؤ ۔ تمہاری پیٹھ گناہوں کے بوجھ سے سنگین ہو گئی ہیں انھیں طولانی سجدوں کے ذریعہ ہلکا کرو... جو شخص بھی اس مہینہ میں نماز فافلہ ادا کرے گا خدا اس کے لئے آتش جہنم سے برائت نامہ لکھ دے گا: توبوا الی اللہ من ذنوبکم ... ان انفسکم مرھونۃ باعمالکم ففکوھا باستغفارکم و ظہورکم ثقیلۃ من اوزارکم فخففوا عنھا بطول سجودکم . من تطوع فیہ بصلاۃ کتب اللہ برائۃ من النار.
نیز رسول اعظم اور ہادی امت سے اپنا رابطہ مضبوط و مستحکم رکھنے اور اس رابطہ کی برکتوں سے بہرہ مند ہونے کے لئے آپ (ص) نے صاحبان ایمان کو اپنے اوپر زیادہ سے زیادہ درود و صلوات بھیجنے کی تاکید و ترغیب فرمائی: ومن اکثر فیہ من الصلاۃ علیّ ثقل اللہ میزانہ یوم تخف الموازین. جو شخص اس مہینے میں میرے اوپر زیادہ سے زیادہ صلوات بھیجے گا خداوند عالم اس کے میزان اعمال کواس دن سنگین کردے گاجب بہت سے لوگوں کے میزان اعمال سبک ہوں گے۔
تیسرا محور:
تقویٰ و پرہیزگاری حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں: میںاس خطبہ کے دوران کھڑا ہوا اور سول خدا سے سوال کیا: اس مہینے میں سب سے برتر اور افضل عمل کیا ہے ؟ رسول اکرم (ص) نے ارشاد فرمایا: خدا کی حرام کردہ چیزوں سے پرہیز کرنا: الورع عن محارم اللہ.
گناہوں کو ترک کرنا جسے اسلامی اصطلاح میں تقویٰ کہاجاتا ہے ، قرآن مجید اور روایات معصومین علیہم السلام میں اس کی بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے اور اسے تمام کمالات اور خوبیوں کا سرچشمہ کہا گیا ہے ۔ قرآن مجید نے تقویٰ کو بہترین زاد آخرت بتایا ہے : فَاِنَّ خَیْْرَ الزَّادِ التَّقْْوَی ﴿سورۂ بقرہ،آیت۷۹۱﴾ ایک مقام پر اسے ایک ایسا لباس کہا ہے جو انسان کی برائیوں کو چھپاتا ہے :وَلِبَاسُ التَّقْْوَی ذَلِکَ خَیْْرٌ ﴿سورۂ اعراف،آیت۶۲﴾ اور ایک آیت میں آیا ہے کہ خدا وندعالم صرف صاحبان تقویٰ کے اعمال کو قبول کرتا ہے: انَّمَا یَتَقَبَّلُ اﷲُ مِنْْ الْْمُتَّقِینَ.﴿سورۂ مائدہ،آیت۷۲﴾
حضرت علی علیہ السلام نے ارشاد فرمایا: یقینا تقویٰ ہدایت کی کنجی اور آخرت کا ذخیرہ ہے۔ ہر گرفتاری سے آزادی اور ہر تباہی سے نجات کا ذریعہ ہے۔ اس کے وسیلہ سے کوشش کرنے والے کامیاب ہوتے ہیں۔ عذاب سے فرار کرنے والے نجات پاتے ہیں اور بہترین مطالب حاصل ہوتے ہیں۔﴿نہج البلاغہ،خطبہ۰۳۲،ترجمہ علامہ جوادی(رح)﴾
نیز ار شاد فرمایا: بندگان خدا ! میں تمہیں تقویٰ الٰہی کی نصیحت کرتا ہوں کہ یہ تمہارے اوپر اللہ کا حق ہے اور اس سے تمہارا حق پروردگار پر پیدا ہوتا ہے ۔اس کے لئے اللہ سے مدد مانگو اور اس کے ذریعہ اسی سے مدد طلب کرو کہ یہ تقویٰ آج دنیا میں سپراور حفاظت کا ذریعہ اور کل جنت تک پہونچنے کا راستہ ہے ۔ اس کا مسلک واضح اور اس کا راہرو فائدہ حاصل کرنے والا ہے ..
.﴿نہج البلاغہ، خطبہ۱۹۱، ترجمہ علامہ جوادی(رح)﴾
چوتھا محور :
حضرت علی - کا تعارف رسول خدا حضرت علی علیہ السلام کے سوال کا جواب دینے کے بعد رونے لگے ۔ امیرا لمومنین (ع) نے عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ(ص) کے گریہ کا سبب کیا ہے ؟ آپ (ص) نے فرمایا: اے علی (ع)! میں تمہارے لئے رورہا ہوں اس لئے کہ ایک دن اسی مہینہ میں تمہارا خون بہایا جائے گا۔ گویا میں دیکھ رہا ہوں کہ تم بارگاہ الٰہی میں نماز میں مصروف ہو اور اولین و آخرین میں سب سے شقی اور بدبخت شخص تمہارے سر پر ضربت لگا رہا ہے اور تمہاری داڑھی سر کے خون سے رنگین ہوگئی ہے۔ حضرت علی علیہ السلام نے رسول خدا کے اس کلام کو سننے کے بعد ایک بہت ہی اہم اور سبق آموز سوال فرمایا: کیا اس وقت میرا دین سالم ہوگا؟ رسول خدا نے فرمایا: بے شک ، سالم ہوگا۔
حضرت علی - کا یہ سوال اس بات کی علامت ہے کہ ایک مومن کو کس حد تک اپنے دین و ایمان کی سلامتی کی فکر میں رہنا چاہئے، بالخصوص موت اور اس دار فانی سے دار بقا کی طرف کوچ کرتے وقت اس لئے کہ بعض روایت کی روشنی میں موت کے وقت شیطان اپنی پوری کوشش کرڈالتا ہے کہ کسی طرح مومن کے ایمان کو اس سے چھین لے ۔ بسا اقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ انسان ایمان و اعتقاد کے ساتھ زندگی بسر کرنے کے باوجود اپنے بعض گناہوں کی وجہ سے موت کے وقت ایمان سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے اور ہمیشہ ہمیشہ کے لئے شقی و بدبخت بن جاتا ہے۔
لہٰذا ہمیں چاہئے کہ بارگاہ الٰہی میں تضرع و زاری اور اولیائے خدا سے توسل کے ذریعہ اپنے ایمان کو ان حضرات کے حوالہ کردیں اور ان سے درخواست کریں کہ موت کے وقت ہمارے ایمان کو ہمیں واپس کردیں اور اس کی حفاظت فرمائیں تاکہ ہم اس دنیا سے باایمان رخصت ہوں اور اس طرح زندگی بسر کریں کہ جب موت کا وقت نزدیک آئے تو ہم اطاعت معبود میں ہوں ۔ قرآن مومنین سے ایسی ہی موت چاہتا ہے: یَاٲَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا اتَّقُوا اﷲَ حَقَّ تُقَاتِہِ وَلاَتَمُوتُنَّ الاَّ وَٲَنْْتُمْْ مُسْْلِمُونَ. ﴿سورۂ آل عمران،آیت۲۰۱﴾
’’ایمان والو! اللہ سے اس طرح ڈرو جو ڈرنے کا حق ہے اور خبردار ایسی حالت میں مرنا کہ تم مسلمان ہو۔‘‘
اس خطبہ میں بھی رسول اعظم نے حضر ت علی علیہ السلام کو اپنا ہم رتبہ اور ہم مرتبہ قرار دیتے ہوئے امام علی علیہ السلام کو مخاطب قرار دے کر فرمایا: یا علی (ع)! من قتلک فقد قتلنی و من ابغضک فقد ابغضنی و من سبک فقد سبنی لانک منی کنفسی، روحک من روحی و طینتک من طینتی. اے علی (ع)! جس نے تمہیں قتل کیااس نے مجھے قتل کیا، جس نے تم سے عداوت کی اس نے مجھ سے عداوت کی، جس نے تمہیں برا بھلا کہا اس نے مجھے برا بھلا کہا؛ اس لئے کہ تم میری جان کے مانند ہو ، تمہاری روح میری روح میں سے ہے اور تمہاری طینت میری طینت میں سے ہے ۔
جس طرح ولایت نبی آپ (ص) کی نبوت و رسالت میں ظاہر ہوتی ہے اور تمام لوگوں پر آپ کے فرامین پر عمل کرنا واجب ہے اسی طرح اوصیائے نبی (ص) کی ولایت ، ان حضرات کی امامت میں ظاہر ہوتی ہے اور سب پر واجب ہے کہ ان کی امامت پر ایمان لائیں اور ان کے حکم کی اطاعت کریں۔ رسول خدا نے حضرت علی علیہ السلام سے فرمایا:
ان اللہ تبارک و تعالیٰ... و اختارنی للنبوۃ و اختارک للامامۃ فمن انکر امامتک فقد انکر نبوتی. اللہ تبارک و تعالیٰ نے مجھے نبوت کے لئے اور تمہیں امامت کے لئے منتخب کیا ۔ پس جس نے بھی تمہاری امامت کا انکار کیا اس نے میری نبوت کا انکار کیا ہے۔
اس کے بعد ارشا د فرمایا:
یا علی (ع)! انت وصیی و ابو ولدی و زوج ابنتی و خلیفتی علی امتی فی حیاتی و بعد موتی ، امرک امری و نہیک نہیی. اے علی (ع)! تم ہی میرے وصی ، میرے بچوں ﴿حسنین علیہما السلام﴾کے والداور میری بیٹی کے شوہر ہو۔ میری امت کے درمیان میری زندگی میں اور میری وفات کے بعد میرے جانشین ہو ۔ تمہارا حکم میرا حکم اور تمہاری نہی میری نہی ہے۔
مرسل اعظم نے خطبۂ شعبانیہ کے آخری حصہ میں اس طرح فرماتے ہیں:
اقسم الذی بعثنی بالنبوۃ و جعلنی خیر البریۃ ، انک لحجۃ اللہ علیٰ خلقہ و امینہ علیٰ سرہ و خلیفتہ علیٰ عبادہ. قسم اس ذات پاک کی جس نے مجھے نبی بنایا اور مخلوقات میں سب سے افضل قرار دیا ۔ بے شک تم خلق خدا پر اس کی حجت ہو ، سر الٰہی کے راز دار اور بندگان خدا پر خلیفۃاللہ ہو۔
٭٭٭