کیوں عاشور کے بارے میں صرف گفتگو پر ہی اکتفا نہیں کیا جاتا؟
س: کیوں عاشور کے بارے میں صرف گفتگو پر ہی اکتفا نہیں کیا جاتا؟
عاشور کی یاد کو زندہ رکھنا صرف اس بات پر منحصر نہیں ہے کہ انسان سر و سینہ پیٹے گریہ و زاری کرے سارے شہر کو سیاہ پوش کرے اسے عزادار بنا دے۔لوگ آدھی آدھی رات تک جاگ کر عزاداری کریں یہاں تک کہ بعض دنوں میں بھی اپنے تمام مشاغل اور روز مرہ کے امور کو ترک کردیں۔ جبکہ ممکن ہے بعض اوقات اس سے لوگوں کو اقتصادی نقصان کا سامنا کرنا پڑے۔ حالانکہ اس واقعہ اور اس کی یاد کو باقی رکھنے کے لیے کسی دوسرے طریقے کو بھی اپنایا جا سکتا ہے جس سے مذکورہ بالا نقصانات سے معاشرہ محفوظ ہو جائے یا پھر کمتر نقصان اٹھانا پڑے۔ اگر مذکورہ بالا سوال کو اس طرح پیش کریں تو یہ بہت سارے لوگوں کی روح اور ان کے مادی اور اقتصادی مسائل سے بہت زیادہ سازگار ہے۔ اور لوگ اس قسم کے مسائل کی طرف زیادہ توجہ دیتے ہیں اور اپنے مسائل کو مادی اور اقتصادی منافع اور ضرر کے حوالے سے پرکھتے ہیں۔ جب لوگ آدھی آدھی رات تک عزاداری کرتے ہیں تو اس کے دوسرے دن ان کے اندر کام یا دوسرے روز مرہ کے مشاغل انجام دینے کی سکت باقی نہیں رہتی لہذا دو مہینہ ماحول کے اندر سستی اور کاہلی چھائی رہتی ہے صرف اس لیے کہ عاشور اور اس کی یاد کو باقی رکھ سکیں حالانکہ اس واقعہ کی یاد اور اس کے احترام کو باقی رکھنے کے لیے دوسرے بہت سارے راستے موجود ہیں جیسے بحث و مباحثہ، علمی نشستیں، کانفرنسیں، علمی تقاریر، مقالات وغیرہ۔ پھر کیوں مہینہ بھر عزاداری اور گریہ و ماتم کو برپا کیا جائے؟ پھر کیوں اس روش کو اپنایا جائے؟ حتی اگر ایک جلسہ کافی نہ ہو تو متعدد جلسے سمینار وغیرہ کروائے جائیں۔
ج:اس سوال کا جواب ایک حد تک پہلے والے سوال کے جواب کی نسبت پیچیدہ اور مشکل ہے اس کا جواب یوں ہے کہ اگر یہ بات خود شخصیت امام حسین(ع) سے متعلق ہے تو یہ کانفرنسیں، سمینار ،علمی ،نشستیں ،تقاریر، مقالہ نویسی کے مسابقات وغیرہ جیسے دوسرے علمی اور ثقافتی امور اور تحقیقات بے حد مفید اور ضروری ہیں البتہ یہ سبھی چیزیں ہمارے سماج میں انجام دی جاتی ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ کیا عاشوارہ جیسے عظیم حادثہ سے بہرہ مند ہونے کے لیے کیا یہ سب کافی ہے؟ یااس سے جتنا فائدہ اٹھانا چاہیے کیا اس کے یہ سب مقدمات کافی اور وافی ہیں؟ اس سوال کا جواب متوقف ہے اس بات پر کہ ہم وجود انسان پر ایک نفسیاتی نگاہ ڈالیں اور اس وجود انسان کا بے طرفہ جائزہ لیں کیا انسان کی رفتار اور کردار پر جو عوامل اثر انداز ہوتے ہیں کیا وہ یہی مشخص عوامل ہیں یا کچھ دوسرے عوامل بھی درکار ہیں جو انسان کی اجتماعی اور فردی زندگی پر اثر انداز ہوتے ہیں؟
جس وقت ہم اپنے کردار اور رفتار کا دقیق نگاہوں سے جائزہ لیتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ہماری رفتار اور کردار پر کم از کم دو طرح کے عوامل ہیں جو بنیادی طور پر اثرانداز ہوتے ہیں ان میں سے ایک قسم کے عوامل تو مشخص ہیں کہ جو باعث بنتے ہیں کہ ہم کسی بات کو سمجھیں اور قبول کریں۔
اس کے بعد جب ہمارے لیے واضح ہو گیا کہ امام حسین (ع) کا کردار سعادت بشری میں ایک اہم رول ادا کرتا ہے تو انشاءاللہ ہم اس نکتہ کی طرف بھی متوجہ ہو جائیں گے کہ شناخت خود بخود ہمارے لیے محرک نہیں ہوتی بلکہ ہمارے احساسات اور جذبات کو بیدار کرنے کی ضرورت ہے جب تک ہمارے احساسات اور جذبات بیدار نہ ہوجائیں اس وقت تک اس قیام جیسا قیام کرنا مشکل ہے۔ اگر ہم چاہیں کہ امام حسین (ع) جیسا عمل انجام دیں تو اس کے لیے احساسات اور عواطف کی بیداری بہت ضروری ہے۔ اس طرح کے امور کے انجام دینے میں دونوں طرح کے عوامل کی ضرورت ہے لہذا علمی نشستیں تقاریر کانفرنسیں سمینار وغیرہ پہلی قسم کی ضرورت کو پورا کر سکتے ہیں یعنی یہ تمام کی تمام چیزیں ہمیں صرف لازم شناخت عنایت کریں گی۔
اب ہم دوسری قسم کے بارے میں عرض کریں:
ضروری ہے اس طرح کے مناظر وجود میں لائے جائیں جن سے عام شناخت کے علاوہ احساسی اور عاطفی عوامل بھی ہمارے اندر قوی ہو جائیں۔ جب یہ احساسات اور عواطف ہمارے اندر بر انگیختہ ہو جائیں گے اس وقت صحیح اثر دکھائیں گے۔ ان اثرات کے نمونہ اپنی اجتماعی اور انفرادی زندگی میں ملاحظہ کر سکتےہیں ان آخری تیس چالیس سالوں میں امام خمینی (رہ) کیطرف سے طاغوت اور ستمگر حکومت کے خلاف چلائی جانے والی تحریک نے لوگوں کو بیدار کرنے میں ایک خاص رنگ دکھایا ہے۔ آپ نے ملاحظہ کیا ہو گا کہ لوگوں کے دلوں میں ایام محرم اور سفر میں نام اور عزاداری سید الشھداء نے ایسا جوش و ولولہ پیدا کیا کہ لوگ تحرک میں آگئے۔ یہ جوش و خروش ایام عاشورا اور دوسرے مراسم عزاداری کے علاوہ لوگوں کے دلوں میں پیدا نہیں ہوتا۔