امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک

فاطمہ سلام اللہ علیہا جن پر خاندان نبوت کو ناز ہے

0 ووٹ دیں 00.0 / 5

ایام فاطمیہ روان داوں ہیں اور ان ایام میں اس کانئات کی سب سے عظیم ہستی مرسل اعظم حضرت محمد مصطفیٰ کی دختر واحدکا یوم شہادت ٣ربیع الاخر کو منایا جاتا ہے اور یہ ایک قران کی حقیقت ہے اس کو ہر ذی روح قران کے توسل سے تسلیم کرتا ہے کہ بحیثت جنس کے عورت کے مد مقابل مرد کا بلہ بھاری ہے جیسا کہ قران میں ارشاد باری تعالی ہے کہ مرد کے بلمقابل دو عورتوں کی گواہی کو لازم ہے۔ مگر اس بات کو ہرگز در گزر نہیں کرنا چاہئے کہ میدان عمل میں عورت کسی بھی اعتبار سے کم اور مرد کے مد مقابل اس کوئی فرق موجود نہیں۔
جیسا کہ اللہ کی کتاب میں سورہ النحل کی آیت ٩٧ میں ارشاد باری تعالی ہوا ہے اگر عورت اور مرد جو شخص بھی نیک کار انجام دے وہ ایمان دار بھی ہے تو ہم اسے پاک اور منزہ زندگی عطا کریں گے۔ اور یہ عمل ہی اس وزن ہو گا یہاں پر تاریخ بھی گواہی دے رہی ہے کہ کہ جب کبھی حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا بارگاہ رسالت ماب میں قدم رنجا فرماتی تو مرسل اعظم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کی تعظیم کے لئے کھڑے ہو جاتے تھے۔

ہر چیز کائنات نبی پر نثار ہے
دنیا تو فاطمہ کے قدم کا غبار ہے

اگر تاریخ انسانیت کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ تاریخ میں ایسی بہت سی خواتین موجود ہیں جہنوں نے اصلاح معاشرہ اور ملت اور مذیب اسلام کی ترقی اور تعمیر میں جان نچاور کر کے نمایاں کردار ادا کیے ہیں اور میدان عمل میں مردوں کے مد مقابل رہ کر جو صلاحیت کے جوہر اور فتح کے علم گاڑئے ہیں تاریخ اس پر کسی طرح بھی خاموش نہیں ہے اور ہر مذہب اور اقوام کے افراد ان کی توصیف کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔

مگر ان سب میں بی بی فاطمہ سلام اللہ علیہا ایک ایسی خاتوں ہیں کہ جس پر خاندان نبوت کو ناز ہے ہو اسلام کی ماتھے پر ایک ستارے اور جھومر کی طرح چمک رہی ہیں۔ وہ ارجمند خاتوں کہ جس کے فضائل پر ہیامبر اکرام اور خانوداہ عصمت و طہارت کے ان گنت فضائل ملتے ہیں وہ عورت جس کی شان اقدس میں ہر صاحب قلم جو پاک فکر رکھتا ہے اپنی پاکیزہ فکر کے توسل سے قصیدہ خوانی کرتا ہے اور پھر بھی اس سے ان کی شان کا حق ادا نہیں ہوتا ۔ خاندان وحی کی سرپرست اور لولاک کی واحد دختر کے فضائل کو اگر یک جا کیا جائے تو دریا کو کوہ میں نہیں سمیٹا جا سکتا یہاں تک کہ دوسرے افراد نے بھی ان کے فضائل کو بیاں کیا ہے وہ ان کی فکری توانائی کے ہم پلہ ہیں ہن کہ ان خاتون کی شان اور منزلت کے مطابق بہر حال حضرت زہرا کے جنتے بھی فضائل ملتے ہیں اگر چہ وہ بہت فضلیت کے حامل ہیں اگر میں ان فضائل کو یہاں پیان کرنے لگوں تو مجھ جیسے کم علم اور کم فکر فرد کو کئی دفتر درکار ہوں گے ۔ لیکن میں جس فضلیت کو سب سے بڑ فضلیت جانتا ہوں وہ ایسی فضلیت ہے جو انبیائ کے علاوہ اور ان کے ہم وزن بعض اولیا کے علاوہ کسی اور کے دامن میں نہیں ملتی ۔ جناب رسول اکرام کی شہادت کے بعد یہ جو ٧٥ یا ٩٠ دن تک مسلسل جبرئیل کی آمد کا سلسلہ جاری و ساری رہا وہ اب تک سی اور کے لئے واقع نہیں ہوا یہ حضرت صدیقہ مرضیہ بینت واحد پیام اکرام کے لئے ایک خاصہ ہے۔ اور اس بات کو ماہنامہ اصلاح لکھنو ٢٠١١ کے صفحہ ١١ پر بھی درج کیا گیا ہے۔
اس امر میں کوئی شک نہیں ہونا چاہئے کہ فضیلتوں کےبستی میں کچھ مقامات ایسے بھی ملتے ہیں کہ جن پر قد آور انبیای اور مرسلین بھی حضرت فاطمہ سے بہت پیچے نظر آتے ہیں۔ جیس کہ محترمہ تنویر ذکیہ صاحبہ نے اپنی تحریر میں درج کیا ہے۔ اس تحریر سے کچھ سطور درج ذیل ہیں۔
١۔ حضرت آدم مٹی سے خلق کئے گئے اور جناب فاطمہ میوہ بہشت ہے
٢۔ حجرت نوع کے تین بیٹے تھے ایک بیٹا کافر تھا جو ڈوب کر ہلاک ہوا جناب فاطمہ کے دو پیٹے تھے (امام حسن و امام حیسن ّ) جو جوانان جنت کے سردار ہیں۔
٣۔حضرت ابرہیم کا ایک پیٹا اساعیلّ کدا کی راہ میں قربان نہ ہو سکا جب کہ جناب فاطمہ کے دو پیٹے اسلام پر قربان ہوئے
٤۔۔حضرت موسی درخت کے زریعہ سے اللہ سے کلام کرتے تھے اور جناب فاطمہ مصلے پر پیٹھ کر اللہ سے کلام کرتی تھیں۔
٥۔ حضرت عیسی کی مان پر لوگوں نے تہمت لگائی جناب فاطمہ کے پہلو پر طالموں نے دروازہ کو گرایا مگر دامن عصمت پر داغ نہ لگا سکے
٦۔ حضرت رسول خدا نے فرمایا کہ فاطمہ میری رسالت میں شریک ہیں۔ رسول عالمین کے لئے رحمت ہیں اور فاطمہ رسول کے لئے رحمت ہیں۔
٧۔ حضرت علی مرتضیّ نے فرمایا کہ فامہ میری بہتریں مدگار ہیں علی کل کے مدگار اور فاطمہ علی کی مدگار ہیں۔
٩۔ حضرت امام حسن اور امام حسین علیہ السلام کی والدہ گرامی فاطمہ ہیں اور مان کے پیروں تلے جنت ہوا کرتی ہے یعنی جنت کے سرداروں کی جنت فاطمہ کے پاوں تلے ہے (افادات اززندگانی حضرت فاطمہ مولفہ سہدی و ستغیب)
مشہور ہے کہ کسی شے کی عظمت کی کبیر اور فاضل شخصیت کی طرف نسبت ہوا کرتی ہے جیسے کہ مسلمان کی ّطمت رسول اکرم پیام بر اکرم حضرت محمد مصطفی ّ کے پیرگار کی نیسب سے ازواج کی عظمت رسول کی زوجیت کی نسیب سے اصحاب کی عطمت رسول کی صحبت میں پیٹھنے کی نسبت سے ۔ اسی لئے تو شاعر مشرق علامہ اقبال جو مفکر اسلام بھی ہیں وہ بھی اس نظریہ پر خاموش نہ رہ سکے اور فرماتے ہیں کہ

مریم از یک نسبت عیسیٰ عزیز
از سہ نسبت حضرت زہرا عزیز


اور جناب قیصر بارہوی نے جس انداز سے جناب زہرا کو نسبت دی


خلاقیت کی سان وہ پیکر ہو روشنی
جیسے دکھائے کنز خفی نقشہ جلی
حد جلا پہ آئنیہ حسن بندگی
یہ حسن بندگی ہے فقط عرت بنی
قائم ہیں سب اصول حرم عرض و طول میں
قران کلام کرتا ہے صحن رسول میں
ایک جگہ اور فرماتے ہیں
سیرت ہو جس کی سیرت سلطان انبی
اس کا وجود عظمت ایوان انبی
کیسے نہ ہو وہ نکہت بستان انبی
جھولا جسے جھلائے سلیمان انبی
دینا میں جنتوں کی ہوا خوریاں ملیں
سبحان ربان کی جسے لوریاں ملیں


مگر حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا خود جن عظمتوں کی مالکہ ہیں کہ خدا وند کریم ملائکہ کے سامنے ان کی نسبت سے اہلبیت علیہم السلام کا تعار ف حدیث کسائ میں کرواتے ہوئے کہتا ہے کہ فاطمہّ کے باپ رسول فاطمہ کے سور امام علیّ فامہ کے فرزند امام حسن اور امام حسینّ ہیں۔ ڈاکٹر علی سریعتی بھی یہی فرماتے ہیں کہ حضرت فامہ زہرا کو صرف ایسی ہستی کی نسبت سے محترم اور عزیز نہ جانو بلکہ فاطمہ کو فاطمہ زات والا صفات سے جانو اور ان کی پحچان یہی ہے کہ وہ فاطمہ ہیں اور یہ امر درست اور سچ ہے کہ سماج میں کچھ فکر خام خیالی اور کمراہی عام تھی جیسا کہ آج کل ہے کوئی ایک دوسرے پر اعتبا ہی نہیں کرتا اور ایک دوسرے کی اپنا پیٹ پھرنے کی فکر میں نقصان پہنچا رہا ہے۔ لرکی باپ کے لئے باعث ننگ و عار جانی جاتی ہے اور عرب کے دور جاہلیت میں صنف نازک کو پیدا ہوتے ہی زندہ در گور کر دیا کرتے تھے مگر بی بی فاطمہ کے آمد سے عربوں کی سوچ میں ایس بڑی نمایاں تبدیل آئی کہ قیامت تک انسان ماننے پر مجبور ہو گیا کہ واقعا اگر ایک لڑکی نیک تعلیم یافت اور حسن اخلاق و عمل سے آراستہ ہو تو نہ صرف اپنے والدین خاندان بلکہ پور قبیلہ اور ملک و ملت کے لئے وجہ افتخار ہوا کرتی ہے شاید ان ہی وجوہات کے بنا پیام بر اکرم نے اس وقت تک معاشرہ کی اصلاح اور تبلیغ شریعت کا کار کی شروعات نہیں کی تھی کہ حضرت فاطمہ سن بلوغ کو نہیں پہنچیں ہماری خواتیں کو بھی اسی کی ضرورت ہے کہ وہ کتاب سیرت زہراہ پر عمل کرتے ہوئے اعلی تعلیم اور بلند کردار خواتین بنیں۔ اور کامیابی کے زینے طے کر کے اپنی اور اپنی قوم اور ملک کی خدمت کریں۔

خیلفہ ثانی عمر بن خطاب کا جناب سیدہ[س] کو مارنے اور محسن کو شہید کرنے کا ابن ابی دارم کا اعتراف

نوٹ:
یہ تحریر استاد قزوینی حفظہ اللہ کے ادارہ کی اس تحریر کا ترجمہ ہے۔
شبہہ:ابن ابی دارم اس روایت کے راویوں میں سے ایک ہیں جس کے بارے میں ذھبی نے کتاب«میزان الاعتدال» میں رافضی کذاب لکھا ہے اگر چہ کہ اپنی پوری زندگی میں اعتقاد میں ثابت قدم تھے لیکن آخر ایام میں شیخین کے مثالب میں زیادہ بات کی ہے اور انھیں گالیاں دی ہیں اس بناء پر اس کی روایت ہمارے لئے حجت نہیں ہے۔ تحقیقی جواب :

اصل روایت:

شمس الدین ذہبی نےسیر اعلام النبلاء اور میزان الإعتدال اسی طرح حافظ ابن حجر عسقلانی نے لسان المیزان میں ،ابن ابی دارم سے نقل کرتے ہوئے لکھا ہے :
إنّ عمر رفس فاطمة حتّی اسقطت بمحسن.
عمر نے فاطمہ[س] کو ایسی لات ماری جس کے سبب محسن [ع]سقط ہو گئے.
الذهبی، شمس الدین محمد بن احمد بن عثمان، (متوفای748ہـ) میزان الاعتدال فی نقد الرجال، ج 1، ص 283، تحقیق: الشیخ علی محمد معوض والشیخ عادل احمد عبدالموجود، ناشر: دار الكتب العلمیة - بیروت، الطبعة: الاولی، 1995م؛
الذهبی، شمس الدین محمد بن احمد بن عثمان، (متوفای748ہـ)، سیر اعلام النبلاء، ج 15، ص 578، تحقیق: شعیب الارناؤوط، محمد نعیم العرقسوسی، ناشر: مؤسسة الرسالة - بیروت، الطبعة: التاسعة، 1413ہـ؛
العسقلانی الشافعی، احمد بن علی بن حجر ابو الفضل (متوفای852 ہـ) لسان المیزان، ج 1، ص 268، تحقیق: دائرة المعرف النظامیة - الهند، ناشر: مؤسسة الاعلمی للمطبوعات - بیروت، الطبعة: الثالثة، 1406ہـ – 1986م.

البتہ جیسا کہ شبھہ میں بیان ہوا ذھبی نے اور ابن حجر نے ابن ابی دارم کو رافضی کہتے ہوئے روایت کو رد کیا ہے اور کہتے ہیں:
احمد بن محمد بن السری بن یحیی بن ابی دارم المحدث ابو بكر الكوفی الرافضی الكذاب... ثم فی آخر ایامه كان اكثر ما یقرا علیه المثالب حضرته ورجل یقرا علیه ان عمر رفس فاطمة حتی اسقطت بمحسن.
تحقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ کہ ابن ابی دارم کی وثاقت اور اعتبار اہل سنت کے نزدیک تھی اور انکی تضعیف کا سبب فقط اس جیسی روایت کا نقل کرنا ہے اس کے علاوہ کوئی نقص نہیں رکھتے ہیں اس لئے علماء اہل سنت کا اعتراف اس بات پر قائم ہے اسکی تمام زندگی عقائد اہلسنت پر گزری ہے اور علماء اہل سنت یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ ابن ابی دارم امام حافظ اور عالم اہلسنت ہیں لیکن بعض تاریخی حقائق کا نقل کرنا سبب بنا کہ اہلسنت کے قلم انکے خلاف لکھنے پر مجبور ہوئے اورانھیں تضعیف کا سامنا کرنا پڑ
شمس الدین ذہبی نے سیر اعلام النبلاء، میں انھیں «امام و پیشوا، حافظ و عالم » کہا ہے:
ابن ابی دارم. الامام الحافظ الفاضل، ابو بكر احمد بن محمد السری بن یحیی بن السری بن ابی دارم....
آگےلکھتے ہیں:
ابن ابی دارم حفظ اورمعرفت کی صفت سے آرستہ تھے لیکن شیعت کی طرف مائل تھے
كان موصوفا بالحفظ والمعرفة إلا انه یترفض.
اور یہ بھی لکھا:
وقال محمد بن حماد الحافظ، كان مستقیم الامر عامة دہره.
الذهبی، شمس الدین محمد بن احمد بن عثمان، (متوفای748ہـ)، سیر اعلام النبلاء، ج 15، ص 577 ـ 579، تحقیق: شعیب الارناؤوط، محمد نعیم العرقسوسی، ناشر: مؤسسة الرسالة - بیروت، الطبعة: التاسعة، 1413ہـ.
محمد بن حماد کہتے ہیں کہ :اپنی تمام زندگی میں مذھب اور عقیدہ پر ثابت قدم تھے.
اسی طرح وہ روایت جو رسول اکرم ص نقل کی جاتی ہے جس میں ابن ابی دارم روای ہیں
حدیث یہ ہے :
الحلال بین، والحرام بین، وبین ذلك مشتبهات لا یعلمها كثیر من الناس. من ترك الشبهات استبرا لدینه وعرضه، ومن وقع فی الشبهات، وقع فی الحرام كالراعی إلی جنب الحمی، یوشك ان یواقعه.
حلال وحرام کی حدیں واضح ہیں لیکن ان دونوں میں شباھات پائی جاتی ہیں جسے اکثر لوگ نہیں جانتے ہیں جس کسی نے مشتبہ کو چھوڑا اس نے اپنے دین اور آبرو کو بچایا اور جو شبھات میں گرفتار ہوا حرام کا مرتکب ہوگا جس طرح بیمار کا ہمنشین ۔
ذہبی ،اس روایت کو نقل کرنے کے بعد کہتے ہیں :
الحدیث. متفق علیہ.
یہ حدیث متفق علیہ ہے .
الذہبی، شمس الدین محمد بن احمد بن عثمان، (متوفای748ہـ)، سیر اعلام النبلاء، ج 15، ص 577، تحقیق: شعیب الارناؤوط، محمد نعیم العرقسوسی، ناشر: مؤسسة الرسالة - بیروت، الطبعة: التاسعة، 1413ہـ؛
لیکن ذھبی آگے لکھتے ہیں اور برے الفاظ استعمال کرتے ہیں:
شیخ ضال معثر.
بڈھا ،گمراہ ، خطاکار!!!.
عجیب ہے کہ ایک شخص پوری زندگی ثابت قدم رہے اور امام ، حافظ اور فاضل لقب پا لے حافظہ قوی اور صاحب معرفت دینی بھی ہو اور اسکی روایت سب کے لئے قابل قبول ہو لیکن ساتھ میں وہ گمراہ اور خطاکار بھی ہو؟!
کیا امام حافظ فاضل صاحب حفظ و معرفت ،«شیخ ضال معثر» کے ساتھ جمع ہو سکتے ہیں؟
ہاں کیوں نہیں جمع ہو سکتے ہیں جب اپنے خلفاء کی عزت بچانے کے لئے بے جا دفاع کیا جائے تو ضرور ایسا بھی ہو سکتا ہے جسے ذھبی نے انجام دے کر بتا دیا ،اور یہ تاریخ میں ایسے عجوبہ وجود میں لا سکتے ہیں اور ایک ہی صفحہ میں دو مختلف بات کرسکتے ہیں ۔
اس بناء پر سوال ہے کہ :
کیا َََرافضی ہونا راوی کو وثاقت سے گرا دیتا ہے ؟
کس عقلمند نے کہا ہے کسی کو رافضی ہونے کی بناء پر اس کی روایت کو رد کردو اور اسے باطل اعلان کرو ؟ اگر اس طرح ہونے لگا تو اہل سنت کو اپنی متعدد روایت سے جو صحاح کی روایت ہیں باطل کی مہر لگانی ہوگی اس لئے صحاح ستہ کے لکھنے والوں نے بہت سی روایت رافضی افراد سے نقل کی ہے جس میں سے بعض کی طرف اشارہ کرتے ہیں

1. عبید اللہ بن موسی:

ذہبی لکھتے ہیں:
قال ابن مندة كان احمد بن حنبل یدل الناس علی عبید الله وكان معروفا بالرفض لم یدع احدا اسمه معاویة یدخل داره.
ابن مندہ کہتے ہیں کہ : احمد بن حنبل لوگوں کو انکی طرف رجوع کرنے کا کہتے تھے ، رافضی ہونے میں مشہور تھے اپنے گھر میں ایسے کسی بھی شخص کو آنے نہیں دیتے تھے جس کا نام معاویہ ہو ۔

الذہبی، شمس الدین محمد بن احمد بن عثمان، (متوفای748ہـ)، سیر اعلام النبلاء، ج 9، ص 556، تحقیق: شعیب الارناؤوط، محمد نعیم العرقسوسی، ناشر: مؤسسة الرسالة - بیروت، الطبعة: التاسعة، 1413ہـ.
آگے لکھتے ہیں
وحدیثه فی الكتب الستة.
انکی روایات صحاح ستہ میں موجود ہیں.
مزی نے تہذیب الکمال میں لکھا ہے کہ : تمام صحاح ستہ میں انکی روایت موجود ہے .
عُبَید الله بن موسی بن أَبی المختار، واسمه باذام العبیسی، مولاهم ابو محمد الكوفی.
رَوَی عَن: إبراهیم بن إِسماعیل بن مجمع (ق)، واسامة بن زید اللیثی (م)، واسرائیل بن یونس (خ م ت س)، وإسماعیل بن أَبی خالد (خ)....

المزی، یوسف بن الزكی عبدالرحمن ابو الحجاج (متوفای742ہـ)، تهذیب الكمال، ج 19، ص 164، تحقیق د. بشار عواد معروف، ناشر: مؤسسة الرسالة - بیروت، الطبعة: الاولی، 1400ہـ – 1980م.
حرف علامت جو عبارت میں یہ علامتی نشان ہے "خ" سے مراد بخاری ہے "م" سے مسلم "ق" سے ابن ماجہ قزوینی "ت" سے ترمذی اور "س "سے نسائی مراد ہیں

2. جعفر بن سلیمان الضبعی:

اہل سنت کے علماء نے انھیں رافضی اور شیعیان غالی میں شمار کیا ہے خطیب بغدادی نے یزید بن رزیع سے نقل کیا ہے :
فان جعفر بن سلیمان رافضی.
البغدادی، احمد بن علی ابو بكر الخطیب (متوفای463ہـ)، تاریخ بغداد، ج 5، ص 164، ذیل ترجمہ احمد بن المقدام بن سلیمان، رقم 2925، ناشر: دار الكتب العلمیة - بیروت.

مزی نے لکھا : بخاری نے کتاب الادب المفرد اور صحاح ستہ کے مولفین نے اس سے روایت نقل کی ہے:
روی لہ البخاری فی "الادب"والباقون.
المزی، یوسف بن الزكی عبدالرحمن ابو الحجاج (متوفای742ہـ)، تہذیب الكمال، ج 5، ص 50، تحقیق د. بشار عواد معروف، ناشر: مؤسسة الرسالة - بیروت، الطبعة: الاولی، 1400ہـ – 1980م.

3. عبد الملك بن اعین الكوفی:

انکی بھی روایات صحاح ستہ میں ہے مزی نے سفیان کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ یہ رافضی ہیں:
عن سفیان: حدثنا عبد الملك بن اعین شیعی كان عندنا رافضی صاحب رای.
آگے لکھتے ہیں:
حَدَّثَنَا سفیان، قال: هم ثلاثة إخوة: عبدالملك بن اعین، وزرارة بن اعین، وحمران بن اعین، روافض كلهم، اخبثهم قولا: عبدالملك
المزی، یوسف بن الزكی عبدالرحمن ابو الحجاج (متوفای742ہـ)، تہذیب الكمال، ج 18، ص 283، تحقیق د. بشار عواد معروف، ناشر: مؤسسة الرسالة - بیروت، الطبعة: الاولی، 1400ہـ – 1980م.
صحاح ستہ میں کافی ایسے راوی ہیں جو رافضیت سے متھم ہوئے ہیں اور انکی تعداد اتنی زیادہ ہے اہلسنت کے علماء کو یہ کہنے پر مجبور کردیا کہ اگر ہم راوی کو اس کے رافضی ہونے کی وجہ سے رد کردیں تو اہلسنت کی کتابیں برباد ہوجائینگی جیسا کہ خطیب بغدادی لکھتے ہیں
قال علی بن المدینی: « لو تركت اهل البصرة لحال القدر، ولو تركت اهل الكوفة لذلك الرای، یعنی التشیع، خربت الكتب »
اگر ہم اہل بصرہ کو مذھب قدری ہونے کی وجہ سے چھوڑ دیں اور کوفیوں کو انکی رائےیعنی شیعہ ہونے کی وجہ سے چھوڑ دیں تو ہمارے کتابیں برباد ہوجائیں گی
خطیب ، علی بن مدینی کے جملے کی تشریح میں کہتے ہیں :
قولہ: خربت الكتب، یعنی لذهب الحدیث.
كتاب نابود و خراب ہونے سے مراد احادیث ختم ہوجائیں گی ۔
البغدادی، احمد بن علی ابو بكر الخطیب (متوفای463ہـ) الكفایة فی علم الروایة، ج 1، ص 129، تحقیق: ابو عبداللہ السورقی، إبراهیم حمدی المدنی، ناشر: المكتبة العلمیة - المدینة المنورة.
دوسری جگہ لکھتے ہیں:
وسئل عن الفضل بن محمد الشعرانی، فقال: صدوق فی الروایة إلا انه كان من الغالین فی التشیع، قیل لہ: فقد حدثت عنه فی الصحیح، فقال: لان كتاب استاذی ملآن من حدیث الشیعة یعنی مسلم بن الحجاج ».
اس سےفضل بن محمد شعرانی کے بارے میں سوال ہوا ۔ انھوں نے کہا: فضل روایت میں صدوق ہیں لیکن وہ تشیع میں افراط کرتے تھے ان سے کہا گیا آپ نے فضل سے صحیح میں روایت نقل کی ہے ۔ انھوں نے کہا میرے استاد کی کتاب شیعہ افراد سے بھری ہوئی ہے یعنی صحیح مسلم
البغدادی، احمد بن علی ابو بكر الخطیب (متوفای463ہـ) الكفایة فی علم الروایة، ج 1، ص131، تحقیق: ابو عبدالله السورقی، إبراهیم حمدی المدنی، ناشر: المكتبة العلمیة - المدینة المنورة.

آیا رافضیت میں افراط کرنا باعث تضیعف راوی ہے ؟ ممکن ہے کوئی اعتراض کرے کہ رافضی ہونا جرح کا سبب نہیں ہوتا ہے لیکن جرح ایسی صورت میں ہے جب کوئی رافضیت میں افراط کرے یعنی امام علی [ع] سے محبت کرے اور انھیں شیخین پر مقدم کرے اور سب شیخین کرے جیسا کہ ابن حجر عسقلانی نے بیان کیا :
والتشیع محبة علی وتقدیمه علی الصحابة فمن قدمه علی ابی بكر وعمر فهو غال فی تشیعه ویطلق علیه رافضی وإلا فشیعی فإن انضاف إلی ذلك السب او التصریح بالبغض فغال إلا فی الرفض وإن اعتقد الرجعة إلی الدنیا فاشد فی الغلو.
تشیع، علی [ع] سے محبت کرنے اور انھیں دوسرے تمام اصحاب پر مقدم جانے کو کہا جاتا ہے اور وہ ابوبکرو عمر پر بھی فوقیت دے تو اپنے تشیع میں افراطی ہے
اور اسے رافضی کہا جاتا ہے لیکن اگر فقط ان سے محبت کرتا ہو ایسا شخص شیعہ ہےاور اگر محبت کے علاوہ صحابہ کو برا بھلا کہتا ہے گالیاں دیتا ہے یا بھر بغض کا اظھار کرتا ہے شیعہ افراطی ہے اور اگر رجعت پر بھی یقین رکھتا ہے تو اس کا افراط شدید تر ہے .
العسقلانی الشافعی، احمد بن علی بن حجر ابو الفضل (متوفای852 ہـ)، ہدی الساری مقدمة فتح الباری شرح صحیح البخاری، ج 1، ص 459، ناشر: دار المعرفة - بیروت - 1379 -، تحقیق: محمد فؤاد عبد الباقی، محب الدین الخطیب.
محمد بن اسماعیل الامیر الصنعانی ، ابن حجر عسقلانی سے نقل کرتےہوئے کہتے ہیں :
التشیع محبة علی علیه السلام وتقدیمه علی الصحابة فمن قدمه علی ابی بكر وعمر رضی الله عنهما فهو غال فی التشیع ویطلق علیه رافضی وإلا فشیعی فإن انضاف إلی ذلك السب والتصریح بالبغض فغال فی الرفض انتهی كلامه.
تشیع،‌ علی[ع] سےمحبت اور انھیں دوسرے اصحاب پر مقدم کرنے کا نام ہے اور اگر کوئی علی [ع] کو ابوبکر و عمر پر مقدم کرے وہ شیعہ افراطی ہے اور اسے رافضی کیا جاتا ہے اور اگر سب و لعن کا اضافہ کرے تو وہ رافضی افراطی ہے .
محمد بن اسماعیل الامیر الصنعانی بات کو آگے بڑاتے ہوئے لکھتے ہیں :
واما الساب فسب المؤمن فسوق صحابیا كان او غیره إلا ان سباب الصحابة اعظم جرما لسوء ادبه مع مصحوبه صلی اللہ علیہ و سلم ولسابقتهم فی الإسلام. وقد عدوا سب الصحابة من الكبائر كما یاتی عن الفریقین الزیدیة ومن یخالف مذهبهم.
مومن کو سب کرنا فسق ہے اگرچہ صحابی ہی کیوں ہو لیکن صحابہ کو سب کرنا بڑا گناہ ہے اس لئے ان لوگوں کی بے ادبی کی ہے جو رسول ص کے ساتھ بیٹھنے والے تھے اور وہ اسلام و مسلمین میں دوسروں کی نسبت سبقت رکھتے ہیں اور سبِصحابہ کو کبائر میں شمار کیا ہے... »
الصنعانی، محمد بن إسماعیل الامیر الحسنی (متوفای1182ہـ)، ثمرات النظر فی علم الاثر، ج 1، ص 39 ـ 40، : تحقیق: رائد بن صبری بن ابی علفة، ناشر: دار العاصمة للنشر والتوزیع - الریاض - السعودیة، الطبعة: الاولی، 1417ہـ - 1996م.
لیکن صحاح ستہ کے راویوں پر نگاہ کرنے کے بعد معلوم ہوتا ہےاس کی سند میں ایسے افراد ہیں جو افراطی رافضی ہیں کہ اس بات کا اہل سنت کے علماء نے اعتراف کیا ہے مثال کے طور پر :

1. تَلِید بن سلیمان المحاربی، ابو سلیمان

یہ رجال سنن ترمذی سے ہیں جو ابوبکر و عمر کو گالیاں دیا کرتے تھے
مزی انکے بارے میں لکھتے ہیں :
وقال ابو داود: رافضی خبیث، رجل سوء، یشتم ابا بكر وعمر.
ابو داود نے کہا: یہ رافضی ، خبیث ، برا انسان ہے ابو بکر اورعمر کو گالیاں دیا کرتا ہے
آگے لکھتے ہیں:
وَقَال [عَباس الدُّورِيُّ ] فی موضع آخر: كذاب، كان یشتم عثمان، وكل من شتم عثمان، او طلحة، او احدا من اصحاب رسول اللہ (ص)، دجال، لا یكتب عنه، وعلیه لعنة الله والملائكة والناس اجمعین.
عباس دوری، نے دوسری مقام پر انکے بارے میں کہا ہے کذاب ہیں عثمان کو گالیاں دیا کرتا تھا اور جو بھی عثمان یا طلحہ یا کسی بھی اصحاب کو گالی دے وہ دجال ہے اس سے حدیث نہیں لی جاتی ہے ، اللہ ، فرشتوں اور لوگوں کی لنعت ہو اس پر ،
المزی، یوسف بن الزكی عبدالرحمن ابو الحجاج (متوفای742ہـ)، تہذیب الكمال، ج 4، ص 321، تحقیق د. بشار عواد معروف، ناشر: مؤسسة الرسالة - بیروت، الطبعة: الاولی، 1400ہـ – 1980م.
ابن حجر عسقلانی لکھتے ہیں:
كذّاب كان یشتم عثمان....
جھوٹا اور عثمان کو گالیاں دیتا تھا.
یہ بھی لکھتے ہیں:
وقال ابن حبان: كان رافضیاً یشتم الصحابة.
ابن حبان نے کہا ہے : وہ رافضی اور صحابہ کو گالیاں دینے والا تھ
العسقلانی الشافعی، احمد بن علی بن حجر ابو الفضل (متوفای852ہـ) تہذیب التہذیب، ج 1، ص 447، ناشر: دار الفكر - بیروت، الطبعة: الاولی، 1404ہـ – 1984م.
ان تمام باتوں کے با وجود اسی شخص کی ، بزرگ علماء اہلسنت توثیق کرتے ہیں اور ایسی روایات اس سے نقل کرتے ہیں جو اہلسنت کے فائدہ میں ہے ابن حجرنے انکے احوال میں لکھتا ہے :
عن احمد كان مذہبہ التشیع ولم نر بہ باسا وقال ایضا كتبت عنہ حدیثا كثیراً عن ابی الجحاف.
احمد بن حنبل سے نقل ہے کہ وہ ایک شیعہ تھے انکے اندر کوئی عیب نہیں تھا [روایت کے اعتبار سے] اور یہ بھی کہا ہے میں نے اس سےبہت حدیثیں لکھی ہیں
وقال البخاری تكلم فیہ یحیی بن معین ورماہ وقال العجلی: لا باس بہ كان یتشیع ویدلس.
بخاری کہتے ہیں:تلید کے بارے میں یحیی بن معین نے کلام کیا ہے اور انکی مذمت کی ہے لیکن عجلی نے کہا اس میں کوئی نقص نہیں ہے اظھار تشیع کرتا تھا اور نقل تغییر دیتے تھے
العسقلانی الشافعی، احمد بن علی بن حجر ابو الفضل (متوفای852ہـ) تہذیب التہذیب، ج 1، ص 447، ناشر: دار الفكر - بیروت، الطبعة: الاولی، 1404ہـ – 1984م.
مزی نےتہذیب الكمال میں لکھا ہے :
روی له التِّرْمِذِی: حدیث ابی الجحاف عن عطیة عَن ابی سَعِید: قال النبی (ص): ما من نبی إلا وله وزیران... الحدیث. وَقَال: حسن غریب.
المزی، یوسف بن الزكی عبدالرحمن ابو الحجاج (متوفای742ہـ)، تهذیب الكمال، ج 4، ص 321، تحقیق د. بشار عواد معروف، ناشر: مؤسسة الرسالة - بیروت، الطبعة: الاولی، 1400ہـ – 1980م.

البتہ واضح ہے کہ یہ روایت اہلسنت کے حق میں ہے اور تلید بن سلیمان نے فضائل خلیفہ اول اور دوم میں نقل کی ہے حسن کہی گئی ہے لیکن وہ روایات جو اہلسنت کے خلاف ہے اور شیخین سے پردہ اٹھاتی ہے تلید کے رافضی ہونے کی بناء پر ضعیف شمار ہونے لگتی ہے
ان تمام باتوں کو چھوڑ دیں اہل سنت کے علماء جرح و تعدیل نے ایسے افراد کی بھی توثیق کی ہے جو امیر المومنین علی [ع] کو سب و شتم کیا کرتے تھے اب سوال کرتے ہیں جب سب و شتمِ صحابہ تضعیف کا باعث بنتا ہے تو نواصب، روات کی توثیق کیوں کی ہے ؟؟
آیا جو ابو بکر و عمر کی کو سب کرے وہ ضعیف ہے اور جو امیر المومنین علی [ع] کو سب کرے وہ ثقہ ہے ؟ یہ کیسی منافقت ہے ؟
ذیل میں چند نواصب کو بیان کرتے ہیں جن کی توثیق علماء اہل سنت نے کی ہے

1- حریز بن عثمان الحمصی:

یہ ملعون شخص 70 مرتبہ مولائے کائنات علی [ع] کو لعن کیا کرتا تھا مزی نے تہذیب الكمال میں ، ذہبی نے تاریخ الإسلام مین، ابن حجر نے تہذیب التہذیب میںاور بدر الدین عینی نے مغانی الاخبار میں لکھا ہے :

عن احمد بن سلیمان المروزی: حدثنا إسماعیل بن عیاش، قال: عادلت حریز بن عثمان من مصر إلی مكة فجعل یسب علیا ویلعنہ.
احمد بن سلیمان مروزی نے اسماعیل بن عیاش سے نقل کیا ہے کہ :میں مصر سے مکہ تک حریز بن عثمان کے ساتھ تھا اس دوران مسلسل علی [ع] کو سب و شتم اور لعن کرتا رہ
المزی، یوسف بن الزكی عبدالرحمن ابو الحجاج (متوفای742ہـ)، تهذیب الكمال، ج 5، ص 576، تحقیق د. بشار عواد معروف، ناشر: مؤسسة الرسالة - بیروت، الطبعة: الاولی، 1400ہـ – 1980م.
الذہبی، شمس الدین محمد بن احمد بن عثمان، (متوفای748ہـ)، تاریخ الإسلام ووفیات المشاہیر والاعلام، ج 10، ص 123، تحقیق د. عمر عبد السلام تدمری، ناشر: دار الكتاب العربی - لبنان/ بیروت، الطبعة: الاولی، 1407ہـ - 1987م.
العسقلانی الشافعی، احمد بن علی بن حجر ابو الفضل (متوفای852ہـ) تہذیب التہذیب، ج 2، ص 209، ناشر: دار الفكر - بیروت، الطبعة: الاولی، 1404ہـ – 1984م.
العینی، بدر الدین محمود بن احمد (متوفای855ہـ)، مغانی الاخیار، ج 1، ص 187.

ابن حجر عسقلانی نے لکھا ہے :
وقال ابن حبان: كان یلعن علیاً بالغداة سبعین مرة، وبالعشی سبعین مرة، فقیل له فی ذلك، فقال: ہو القاطع رؤوس آبائی واجدادی.
ابن حبان کہتا ہے کہ : حریز علی[ع] کو صبح میں 70 بار اور شام میں 70 بار لعن کیا کرتا تھا میں اس سے علت معلوم کی تو اس نے کہا : علی[ع] نے میرے آباء و اجداد کے سر قلم کئے ہیں
العسقلانی الشافعی، احمد بن علی بن حجر ابو الفضل (متوفای852ہـ) تہذیب التہذیب، ج 2، ص 209، ناشر: دار الفكر - بیروت، الطبعة: الاولی، 1404ہـ – 1984م.

مزی نے تہذیب الكمال میں ، ابن حجر عسقلانی نے تہذیب التہذیب میں لکھا ہے :
وسالت احمد بن حنبل عنہ فقال ثقة ثقة وقال ایضا لیس بالشام اثبت من حریز... قال: وَقَال ابو داود: سمعت احمد وذكر لہ حریز وابو بكر بن أَبی مریم وصفوان، فقال: لیس فیہم مثل حریز، لیس اثبت منہ، ولم یكن یری القدر، قال: وسمعت احمد مرة اخری یقول: حریز ثقة، ثقة.
: میں نے اس کے بارے احمد بن حنبل سے سوال کیا : کہا: ثقہ ہے ثقہ ہے ۔اور کہا شام میں حریز سے زیادہ کوئی نقل میں مورد اطمئنان شخص نہیں ہے معاذ بن معاز کہتے ہیں کہ جب میں میں احمد بن حنبل کے پاس تھا تو حریز، ابوبكر بن مریم اور صفوان کا تذکرہ ہوا تو احمد سے سنا کہ ان میں حریز جیسا کوئی نہیں ہے اور اسکے علاوہ کوئی اور نقل میں معتبر ترین نہیں ہے میں نے ایک بار پھر احمد سے سنا ہے کہ : حریز ثقہ ہےثقہ ہے

العسقلانی الشافعی، احمد بن علی بن حجر ابو الفضل (متوفای852ہـ) تہذیب التهذیب، ج 2، ص 209، ناشر: دار الفكر - بیروت، الطبعة: الاولی، 1404ہـ – 1984م.
المزی، یوسف بن الزكی عبدالرحمن ابو الحجاج (متوفای742ہـ)، تهذیب الكمال، ج 5، ص 572، تحقیق د. بشار عواد معروف، ناشر: مؤسسة الرسالة - بیروت، الطبعة: الاولی، 1400ہـ – 1980م.

ابن حجر نےحریز کے ترجمہ کے ابتداء میں لکھا:
[من رجال] البخاری والاربعة.
یہ بخاری کا اور چار صحاح کا راوی ہے [مسلم کے علاوہ].
و بدر الدین عینی نے لکھا:
روی له الجماعة سوی مسلم، وابو جعفر الطحاوی. وفی التهذیب: روی له البخاری حدیثین.
العینی، بدر الدین محمود بن احمد (متوفای855ہـ)، مغانی الاخیار، ج 1، ص 187.

اگر سب و شتم ِ صحابہ تضعیف کا باعث بنتا ہے تو بخاری نے کیوں اس سے روایت نقل کی ہے؟ امام احمد بن حنبل کیوں اسکی توثیق کی ہے ؟

2. عمر بن سعد بن ابی وقاص، قاتل امام حسین (ع):

مزی نے تہذیب الكمال میں اور ابن حجر نے تہذیب التہذیب میں ، عمر بن سعد بن ابووقاص، جو کربلا میں یزیدیوں کا مشہور سپہ سالار تھا ،بارے میں لکھا ہے :
وَقَال احمد بن عَبد الله العجلی: كان یروی عَن ابیه احادیث، وروی الناس عنہ. وہو الذی قتل الحسین، وہو تابعی ثقة.
عجلی نے کہا ہے : عمر بن سعد اپنے والد سے روایت نقل کرتا ہے اور دیگر افراد اس سے روایت نقل کرتے ہیں یہ وہی ہے جس نے حسین [علیہالسلام] کو قتل کیا ہے یہ ثقہ ہے اور تابعی ہے
المزی، یوسف بن الزكی عبدالرحمن ابو الحجاج (متوفی742ہـ)، تهذیب الكمال، ج 21، ص 357، تحقیق د. بشار عواد معروف، ناشر: مؤسسة الرسالة - بیروت، الطبعة: الاولی، 1400ہـ – 1980م.
العسقلانی الشافعی، احمد بن علی بن حجر ابو الفضل (متوفی852ہـ) تہذیب التهذیب، ج 7، ص 396، ناشر: دار الفكر - بیروت، الطبعة: الاولی، 1404ہـ – 1984م.

عجیب بات ہے اہل سنت کے لئے وہ شخص ثقہ ہے جس نے بیدردی سے فرزند رسول اکرم ص کو قتل کیا ہے اور رسول اکرم ص کی بیٹیوں کو قیدی بنایا ہےاور انکے لئے ایسے افراد کی روایت حجت رکھتی ہو لیکن اگر کوئی علی [ع] سے محبت رکھتا ہو اور انھیں خلفاء ثلاثہ پر مقدم سمجھتا ہو یا کبھی انکی توہین کی ہو اس کی روایت ضعیف اور غیر قابل؛ قبول بن جاتی ہے؟

نتیجہ:

 روایت ابن ابی دارم، کسی بھی طرح کا نقص نہیں رکھتی ہے اور وہ تھمت جو اسے لگائی گئی ہے مثل رافضی یا رافضی افراطی روایت پر اثر انداز نہیں ہوتی ہے اس لئے ایسی تھمت بخاتی ، مسلم اور دیگر صحاح کے راویوں کے لئے بھی لگائی گئی ہے۔
اللهم صل علی محمد و آل محمد

 

آپ کا تبصرہ شامل کریں

قارئین کے تبصرے

کوئی تبصرہ موجودنہیں ہے
*
*

امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک