کیا ہر سال شبِ قدر میں تمام انسانوں کے نامۂ اعمال کا امام زمانہ (عج) کی خدمت میں پیش کیا جانا اور آپ سے دستخط لینا توحید کے منافی نہی
سوال : ھم ھرسال شب قدر میں اس امر کا مشاھدہ کرتے ھیں کہ منبروں اورذرائع ابلاغ کے ذریعہ سالانہ مقدر کے بارے میں کھا جاتا ھے کہ ملائکہ اعمال ناموں کو حضرت حجت (عج) کی خدمت میں پیش کرکے حضرت (عج) سے دستخط لیتے ھیں۔ اس سلسلہ میں چند نکات قابل توجہ ھیں:
۱۔ توحید کے مباحث سے جو استنباط کیا جاتا ھے وہ یہ ھے کہ بندوں کا مقدر صرف خدا کے ھاتھ میں ھے اور جوکچھ بعض سٹیجوں پر کھا اور کتابوں میں لکھا جاتا ھے، وہ اس معنی میں ھے کہ خداوند متعال نے دنیا کے نظم و انتظام کاکام امام معصوم (ع) کو سونپا ھے۔
۲۔ چونکہ شب قدر گزشتہ امتوں میں بھی رائج تھی، مذکورہ دعویٰ کے صحیح ھونے کی صورت میں، مثال کے طور پر حضرت عیسیٰ (ع) سے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ تک ۵۰۰ سالہ وقفہ کے دوران ان نامہ اعمال پر کون دستخط کرتا تھا؟
۳۔ کم از کم میں نے دوتفسیروں، تفسیر المیزان اور تفسیر نمونہ میں سورہ قدر و سورہ دخان کے بارے میں جو تحقیق کی ھے، اس میں اس مسئلہ (یعنی حضرت حجت علیہ السلام کے توسط سے اعمال ناموں پر دستخط) کے بارے میں کوئی اشارہ نھیں ملتا ھے اور جو کچھ نقل کیا جاتا ھے۔ وہ سند کے بغیر روایت ھے۔ مھر بانی کر کے اس سلسلہ میں اپنا نظریہ بیان کیجئے؟
اجمالی جواب :
معتبر روایات کے مطابق بندوں کے تمام امور، پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، امام معصوم علیہ السلام اور حجت خدا عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کے سامنے پیش کئے جاتے ھیں اور چونکہ اس وقت حجت خدا یعنی امام عصر عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف، حی و زندہ ھیں، اس لئے تمام امور حضر (عج) کی خدمت میں پیش کئے جاتے ھیں۔لیکن سوال کرنے والے کے اعتراض کے بارے میں یہ کھنا ھے کہ:
۱۔ گزشتہ امتوں میں شب قدر کا وجود نھیں تھا۔
۲۔ اگر ھم اسے قبول نہ کریں اور گزشتہ امتوں میں شب قدر کے وجود کے قائل ھوجائیں تو ھمیں جاننا چاھئے کہ عقلی و نقلی دلائل کی بناء پر، کسی زمانے میں حتی کہ وقفہ کے دوران بھی زمین حجت خدا (پیغمبر یا ان کے وصی) سے خالی نھیں رھی ھے۔وقفہ کے دوران، زمین حجت خدا سے خالی نھیں تھی، بلکہ اس چھ سو سال کے وقفہ کے دوران رسول اور پیغمبر مبعوث نھیں ھوئے ھیں۔ بیشک حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے اوصیا اور جانشین زمین پر خدا کی حجت کے عنوان سے تھے، اس بناء پر کھا جاسکتا ھے کہ: وقفہ کے دوران شب قدر میں حجت خدا پر فرشتوں کا نازل ھونا، حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے جانشینوں پر نازل ھونا ھے۔
۳۔ شب قدر میں بندوں کے اعمال پر امام علیہ السلام کے دستخط، کرنے کا کام کسی صورت میں توحید کے منافی نھیں ھے، کیونکہ امام کے تمام اختیارات اور تصرفات خدا کی اجازت سے ھوتے ھیں اور امور میں طول کی صورت میں موثر ھیں۔
تفصیلی جواب :
در حقیقت آپ کا سوال مندرجہ ذیل چارسوالات پر مشتمل ھے:۱۔ کیا ھر سال شب قدر میں فرشتے ھمارے نامہ اعمال کو حضرت حجت عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کی خدمت میں پیش کرکے ان سے دستخط لیتے ھیں؟
۲۔ کیا اسلام سے پھلے بھی شب قدر تھی؟
۳۔ اگر اسلام سے پھلے شب قدر تھی، تو وقفہ یعنی{حضتے عیسی علیہ السلام اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت کے درمیانی زمانہ} کے دوران فرشتے کس کی خدمت میں حاضر ھوتے تھے؟
۴۔ کیا شب قدر میں بندوں کے ایک سالہ مقدرات پر دستخط ھونا توحید کے ساتھ موافقت رکھتا ھے؟
۱۔ پھلے سوال کے جواب میں قابل بیان ھے کہ،معتبر روایات کے مطابق بندوں کے تمام امور، پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، امام معصوم علیہ السلام اور حجت خدا کے سامنے پیش کئے جاتے ھیں اور چونکہ اس وقت حجت خدا یعنی امام عصر عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف، حی و زندہ ھیں، اس لئے تمام امور حضرت حجت{عج} کی خدمت میں پیش کئے جاتے ھیں۔
امام جواد علیہ السلام، امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام سے نقل کرتے ھیں کہ حضرت حجت (عج) نے ابن عباس سے فرمایا:”شب قدر ھر سال ھوتی ھے اور خداوند متعال اس شب میں سال کے تمام امور نازل کرتا ھے، رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد بھی کچھ افراد ان امور کے ذمہ دار ھیں۔ ابن عباس نے امام سے پوچھا: وہ کون لوگ ھیں؟ امام علی علیہ السلام نے جواب میں فرمایا: میں اور میری اولاد میں سے گیارہ فرزند، ھم سب امام ھیں اور فرشتوں سے گفتگو کرنے والے ھیں۔“[1]
۲۔ کیا شب قدر گزشتہ امتوں میں بھی تھی؟
متعدد واضح روایتوں اور آیہ شریفہ ”خیر من الف شھر“ کی شان نزول کے مطابق[2] یہ الھی عطیات صرف اس امت سے مخصوص ھیں، چنانچہ ایک حدیث میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ھے:“ان الله وھب لامتی ليلته القدر لم یعطها من کان قبلھم“ یعنی، خداوند متعال نے میری امت کو شب قدر عطا کی ھے اور گزشتہ امتوں میں سے کسی امت کو یہ عطیہ الھی نصیب نھیں ھوا ھے۔”[3]
البتہ سورہ قدر کی ظاہری آیات سے معلوم ھوتا ھے کہ شب قدر نزول قرآن اور عصر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مخصوص نھیں تھی، بلکہ [پیغمبر کے زمانہ سے ]ھر سال دنیا کے خاتمہ تک تکرار ھوگی۔
فعل مضارع "تنزیل" کی تعبیر استمرار پر دلالت کرتی ھے، اور اسی طرح جملہ اسمیہ "سلام ھی حتی مطلع الفجر"کی تعبیر اس کے جاری رھنے کی علامت ھے، یہ بھی اس معنی کی گواھی ھے۔
اس کے علاوہ بھت سی روایتیں، (جو شاید تواتر کی حد میں ھیں) بھی اس معنی کی تائیدکرتی ھیں۔[4]
۳۔ اگر ھم اسے قبول نہ کریں اور گزشتہ امتوں میں شب قدر کے وجود کے قائل ھوجائیں تو ھمیں جاننا چاھئے کہ عقلی و نقلی دلائل کی بناء پر، کسی زمانے میں حتی کہ وقفہ کے دوران بھی زمین حجت خدا (پیغمبر یا ان کے وصی) سے خالی نھیں رھی ھے۔ وقفہ کے دوران، زمین حجت خدا سے خالی نھیں تھی، بلکہ اس چھ سو سال کے وقفہ کے دوران رسول اور پیغمبر کے نہ ھونے کے معنی یہ ھیں۔ بیشک حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے اوصیا اور جانشین زمین پر خدا کے حجت تھے، اس بناء پر کھا جاسکتا ھے کہ: وقفہ کے دوران شب قدر میں حجت خدا پر فرشتوں کا نازل ھونا، حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے جانشینوں پر نازل ھونا ھے۔
وضاحت:
خداوند متعال سورہ "مائدہ" میں ارشاد فر ماتا ھے:"اے اھل کتاب تمھارے پاس رسولوں کے ایک وقفہ کے بعد ھمارا یہ رسول آیا ھے کہ تم یہ نہ کھو کہ ھمارے پاس کوئی بشیر و نذیر نھیں آیا تھا۔"[5]حضرت عیسی علیہ السلام سے حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ تک کی درمیانی مدت تقریبا چھ سو سال کے وقفہ پر مشتمل تھی اسے"دوران فترت" کھتے ھیں۔ اس کے علاوہ مذکورہ آیہ شریفہ سے معلوم ھوتا ھے کہ اس مدت کے دوران کوئی رسول اور پیغمبر کا نہ ھونا زمین پر حجت خدا کے نہ ھونے اور انسان کے خدا سے رابطہ منقطع ھونے کی دلیل نھیں ھوسکتی ھے۔
بلکہ زمین کبھی حجت خدا سے خالی نھیں رھتی ھے۔ امام علی علیہ السلام نے کمیل سے مخاطب ھوکر فرمایا:
" جی ھاں، زمین ھرگز حجت الھی سے خالی نھیں رھے گی،خواہ وہ حجت آشکار ھو یا مخفی اور نا شناختہ، تاکہ خداوند متعال کے احکام، دستور، دلیلیں اور نشانیاں ختم نہ ھو جائیں۔ ۔ ۔ خداوند متعال ان کے ذریعہ اپنی نشانیوں اور دلیلوں کی حفاظت کرتا ھے تاکہ وہ اپنے جیسے افراد کو یہ ذمہ داری سونپیں اور اس کے بیج کو اپنے جیسے انسانوں کے دلوں میں ڈال دیں ۔ ۔ ۔[6]"
اس لحاظ سے ھم اعتقاد رکھتے ھیں کہ زمین پر پھلا انسان حجت خدا تھا اور آخری انسان بھی حجت خدا ھوگا۔
بیشک"فترت" کے زمانے، یعنی حضرت عیسی ع سے حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے زمانہ کے دوران حجت خدا موجود تھا۔ امام رضا علیہ السلام ایک روایت میں فرماتے ھیں:" بیشک کسی بھی زمانہ میں زمین حجت خدا سے خالی نھیں رھتی ھے۔[7]" اگرچہ ممکن ھے کہ ھم اس کے نام اور کوائف سے بے خبر ھوں، جس طرح ھم ایک لاکھ چوبیس ھزار پیغمبروں [ع] میں سے صرف ایک محدود تعداد کو جانتے ھیں۔
دوسری جانب ممکن ھے حجت (فرد) خدا نبی ھو یا اس کا جانشین، کیونکہ ھر پیغمبر کا ایک جانشین ھوتا ھے۔ اھل سنت اور شیعوں نے روایت نقل کی ھے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فر مایا ھے:" ھر پیغمبر کا ایک وصی ھے۔[8]"
اس لحاظ سے شیعوں کا یہ اعتقاد ھے کہ ھر زمانہ میں زمین پر خداوند متعال کا ایک حجت (فرد) ھوتا ھے، جو خدا کے فیض کا واسطہ اور اس کے دین کا محافظ اور لوگوں کا علمی مرجع ھوتا ھے۔
اس بناء پر کھا جاسکتا ھے کہ"فترت"یعنی وقفہ کے دوران شب قدر میں حضرت عیسی علیہ السلام کے وصی اور جانشین پر فرشتے نازل ھوتے تھے۔
البتہ، جو اعتراض اس تجزیہ پر کیا جاتا ھے، وہ یہ ھے کہ اگر چہ ھرزمانہ میں دنیا میں خدا کا ایک حجت ھوتا ھے ، جو خدا کے فیض و بر کات کا ذریعہ، دین کا محافظ اور لوگوں کےلئے علمی مرجع ھوتا ھے، لیکن شاید ھم،تمام جانشینوں کی خدمت میں حجت خدا ھونے کے باوجود بندوں کے اعمال پیش کئے جانے کی کوئی دلیل پیش نہ کرسکیں۔ لیکن چونکہ ھم اعتقاد رکھتے ھیں کہ گزشتہ امتوں میں شب قدر نھیں تھی، اس لئے کوئی مشکل نھیں ھے۔
۴۔ کیا پیغمبروں کے ایک سال کے اعمال کے مقدرات پر شب قدر میں دستخط کیا جانا توحید سے مطابقت رکھتا ھے۔
حجت خدا زمین پر خدا کا خلیفہ اور اس کا نمایندہ ھوتا ھے اور اس کا انجام پانے والا ھر کام خدا کے ارادہ و اجازت سے ھوتا ھے اور یہ کام امور پر طول کی صورت میں اثر رکھتا ھے۔ اس لحاظ سے یہ کام کسی صورت میں توحید کے منافی نھیں ھے۔ امام مھدی عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف فرماتے ھیں:"ھمارے دل، مشیت الھی کے ارادہ کے ظرف ھیں۔ اگر وہ چاھے تو ھم بھی چاھتے ھیں۔[9]
اور اگر ھم اس امر کے معتقد ھیں کہ فرشتے ھر سال شب قدر میں ھمارے نامہ اعمال کو حضرت حجت عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کی خدمت میں پیش کرکے ان سے دستخط لیتے ھیں، تو یہ کام خداوند متعال کے ارادہ اور مشیت سے انجام پاتا ھے اور یہ توحید سے کسی صورت میں منافات نھیں رکھتا ھے۔ جیسا کہ حضرت عیسی علیہ السلام نے فرمایا ھے:" میں تمھارے لئے مٹی سے پرندہ کی شکل بناﺅ ں گا تو وہ حکم خدا سے پرندہ بن جائے گا"[10]یہ کسی صورت میں توحید کے منافی نہیں ھے.[11]